الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
30 ہزار کی فوج کی بھیڑ بھاڑ کے ساتھ شام کی طرف بڑھے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ادھر ادھر سے فوجیں جمع کر کے حمص کے باہر صفیں جمائیں۔ ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام حالات کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آٹھ بڑے بڑے شہروں میں فوجی چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں اور ہر جگہ چار چار ہزار گھوڑے فقط اس غرض سے ہر وقت تیار رہتے تھے کہ کوئی اتفاقیہ موقع پیش آ جائے تو فوراً ہر جگہ سے فوجیں یلغار کر کے موقع پر پہنچ جائیں۔ ابو عبیدہ کا خط آیا تو ہر طرف قاصد دوڑا دیئے۔ قعقاع بن عمو کو جو کوفہ میں مقیم تھے لکھا کہ فوراً چار ہزار سوار لے کر حمص پہنچ جائیں۔ سہیل بن عدی کو حکم بھیجا کہ جزیرہ پہنچ کر جزیرہ والوں کو حمص کی طرف بڑھنے سے روک دیں۔ عبد اللہ بن عتبان کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی طرف روانہ کیا۔ ولید بن عقبہ کو مامور کیا کہ جزیرہ پہنچ کر عرب کے ان قبائل کو تھام رکھیں جو جزیرہ میں آباد تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان انتظامات پر ہی قناعت نہ کی بلکہ خود مدینہ سے روانہ ہو کر دمشق میں آئے۔ جزیرہ والوں نے جب یہ سنا کہ خود ان کے ملک میں مسلمانوں کے قدم آ گئے تو حمص کا محاصرہ چھوڑ کر جزیرہ کو چل دیئے۔ عرب کے قبائل جو عیسائیوں کی مدد کو آئے تھے وہ بھی پچھتائے اور خفیہ خالد کو پیغام بھیجا کہ تمہاری مرضی ہو تو ہم اسی وقت عین موقی پر عیسائیوں سے الگ ہو جائیں۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہلا بھیجا کہ " افسوس! میں دوسرے شخص (ابو عبیدہ) کے ہاتھ میں ہوں۔ اور وہ حملہ کرنا پسند نہیں کرتا ورنہ مجھ کو تمہارے ٹھہرنے اور چلے جانے کی مطلق پرواہ نہ ہوتی۔ تاہم اگر تم سچے ہو تو محاصرہ چھوڑ کر کسی طرف نکل جاؤ۔ " ادھر فوج نے ابو عبیدہ سے تقاضا شروع کیا کہ حملہ کرنے کی اجازت ہو۔ انہوں نے خالد سے پوچھا۔ خالد نے کہا " میری جو رائے معلوم ہے عیسائی ہمیشہ کثرت فوج کے بل پر لڑتے ہیں، اب کثرت بھی نہیں رہی۔ پھر کس بات کا اندیشہ ہے۔ " اس پر بھی ابو عبیدہ کا دل مطمئن نہ تھا، تمام فوج کو جمع کیا اور نہایت پر زور اور مؤثر تقریر کی کہ مسلمانو! آج جو ثابت قدم رہ گیاوہ اگر زندہ بچا تو ملک و مال ہاتھ آئے گا۔ اور مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی۔ میں گواہی دیتا ہوں (اور یہ جھوٹ بولنے کا موقع نہیں) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص مرے اور مشرک ہو کر نہ مرے وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ فوج پہلے ہی سے حملہ کرنے کے لیے بے قرار تھی۔ ابو عبیدہ کی تقریر نے اور بھی گرما دیا۔ اور دفعتاً سب نے ہتھیار سنبھال لئے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قلب فوج اور خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عباس میمنہ و میسرہ کو لے کر بڑھے۔ قعقاع نے جو کوفہ سے چار ہزار فوج کے ساتھ مدد کو آئے تھے۔ حمص سے چند میل پر راہ میں تھے کہ اس واقعہ کی خبر سنی۔ فوج چھوڑ کر سو سواروں کے ساتھ ابو عبیدہ سے آ ملے۔ مسلمانوں کے حملہ کے ساتھ عرب کے قبائل (جیسا کہ خالد سے اقرار ہو چکا تھا) ابتری کے ساتھ پیچھے ہٹے۔ ان کے ہٹنے سے عیسائیوں کا بازو ٹوٹ گیا۔ اور تھوڑی دیر لڑ کر اس بدحواسی سے بھاگے کہ مرف الدیباج تک ان کے قدم نہ جمے۔ یہ اخیر معرکہ تھا جس کی ابتدا خود عیسائیوں کی طرف سے ہوئی۔ اور جس کے بعد ان کو پھر کبھی پیش قدمی کا حوصلہ نہیں ہوا۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معزول ہونا