الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آذر بائیجان کا علم عتبہ بن فرقد اور بکیر کو بھیجا تھا اور ان کے بڑھنے کی سمتیں بھی متعین کر دی تھیں۔ بکیر جب میدان میں پہنچے تو اسفند یار کا سامنا ہوا۔ اسفند یار نے شکست کھائی اور زندہ گرفتار ہو گیا۔ دوسرے طرف اسفند یار کا بھائی بہرام عتبہ کا سد راہ ہوا، وہ بھی شکست کھا کر بھاگ گیا۔ اسفند یار نے بھائی کی شکست کی خبر سنی تو بکیر سے کہا کہ اب لڑائی کی آگ بجھ گئی اور میں جزیہ پر تم سے صلح کر لیتا ہوں۔ چونکہ آذر بائیجان انہی دونوں بھائیوں کے قبضے میں تھا۔ عتبہ نے اسفند یار کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ آذر بائیجان کا رئیس رہ کر جزیہ ادا کرتا رہے۔ مؤرخ بلاذری کا بیان ہے کہ آذربائیجان کا علم حذیفہ بن یمان کو ملا تھا۔ وہ نہاوند سے چل کر اردبیل پہنچے جو آذربائیجان کا پایہ تخت تھا۔ یہاں کے رئیس نے ماجروان، ہیمند، سراۃ، سبز، میانج وغیرہ سے ایک انبوہ کثیر جمع کر کے مقابلہ کیا اور شکست کھائی۔ پھر آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح ہو گئی۔ حذیفہ نے اس کے بعد موقان و جیلان پر حملہ کیا۔ اور فتح کے پھریرے اڑائے۔ اسی اثناء میں دربار خلافت سے حذیفہ کی معزولی کا فرمان پہنچا اور عتبہ بن فرقد ان کی جگہ مقرر ہوئے۔ عتبہ کے پہنچتے پہنچتے آذربائیجان کے تمام اطراف میں بغاوت پھیل چکی تھی۔ چنانچہ عتبہ نے دوبارہ ان مقامات کو فتح کیا۔ طبرستان 22 ہجری (643 عیسوی) (نقشہ میں طبرستان فتوحات شمالی میں ملے گا۔ اس لئے کہ خلافت فاروقی میں جزیہ دے کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ مشرق میں خراسان و جرجان، مغرب میں آذر بائیجان، شمال میں جوزجان اور جنوب میں بلاخیل، بصام اور استر آباد اس کے مشہور شہر ہیں۔ ) ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ نعیم نے جب رے فتح کر لیا تو ان کے بھائی سوید قومس پر بڑھے اور یہ وسیع صوبہ بغیر جنگ و جدل کے قبضہ میں آ گیا۔ یہاں سے جرجان جو طبرستان کا مشہور ضلع ہے ، نہایت قریب ہے۔ سوید نے وہاں کے رئیس روزبان سے نامہ پیام کیا۔ اس نے جزیہ پر صلح کر لی۔ اور معاہدہ صلح میں بتصریح لکھ دیا کہ مسلمان جرجان اور دہستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں۔ اور ملک والوں میں جو لوگ بیرونی حملوں کے روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ جرجان کی خبر سن کر طبرستان کے رئیس نے بھی جو سپہدار کہلاتا تھا اس شرط پر صلح کر لی کہ پانچ لاکھ درہم سالانہ دیا کرے گا اور مسلمانوں کو ان پر یا ان کو مسلمانوں پر کچھ حق نہ ہو گا۔