الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسکندریہ اور فسطاط کے بعد اگرچہ عمرو کا کوئی حریف نہیں رہا تھا۔ تاہم چونکہ مصر کے تمام اضلاع میں رومی پھیلے ہوئے تھے۔ ہر طرف تھوڑی تھوڑی فوجیں روانہ کیں کہ آئندہ کسی خطرے کا احتمال نہ رہ جائے۔ چنانچہ خارجہ بن حذافہ العدوی فیوم، اشموتین، احمیم، بشر دوات، معید اور اس کے تمام مضافات میں چکر لگا آئے اور ہر جگہ لوگوں نے خوشی سے جزیہ دینا قبول کیا۔ اسی طرح عمیر بن وہب الجمحی نے تینس دمیاط، تونہ ، دمیرہ، شطا، وقبلہ، بنا، بوہیر کو مسخر کیا۔ عقبہ بن عامر الجھنی نے مصر کے تمام نشیبی حصے فتح کئے۔ (فتوح البلدان )۔ چونکہ ان لڑائیوں میں نہایت کثرت سے قبطی اور رومی گرفتار ہوئے تھے۔ عمرو نے دربار خلافت کو لکھا کہ ان کی نسبت کیا کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب لکھا کہ سب کو بلا کر کہہ دو کہ ان کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جائیں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ اسلام قبول کریں گے تو ان کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ورنہ جزیہ دینا ہو گا۔ جو تمام ذمیوں سے لیا جاتا ہے۔ عمرو نے تمام قیدی جو تعداد میں ہزاروں سے زیادہ تھے ، ایک جگہ جمع کئے ، عیسائی سرداروں کو طلب کیا۔ اور مسلمان و عیسائی الگ الگ ترتیب سے آمنے سامنے بیٹھے۔ بیچ میں قیدیوں کا گروہ تھا۔ فرمان خلافت پڑھا گیا تو بہت سے قیدیوں نے جو مسلمانوں میں رہ کر اسلام کے ذوق سے آشنا ہو گئے تھے ، اسلام قبول کیا اور بہت سے اپنے مذہب پر قائم رہے۔ جب کوئی شخص اسلام کا اظہار کرتا تھا تو مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تھے اور خوشی سے بچھے جاتے تھے۔ اور جب کوئی شخص عیسائیت کا اقرار کرتا تھا تو تمام عیسائیوں میں مبارکباد کا غل پڑتا تھا۔ اور مسلمان اس قدر غمزدہ ہوتے تھے کہ بہت سوں کے آنسو نکل پرتے تھے۔ دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا اور دونوں فریق اپنے اپنے حصہ رسدی کے موافق کامیاب آئے۔ (طبری – 283)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت(26 ذوالحجہ 23 ہجری – 644 عیسوی) (کل مدت خلافت دس برس چھ مہینے چار دن) مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا۔ جس کی کنیت ابو لولو تھی، اس نے ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آ کر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے۔ آپ کم کرا دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تعداد پوچھی۔ اس نے کہا روزانہ دو درہم (قریباً سات آنے )۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا، تو کون سا پیشہ کرتا ہے ، بولا کہ "نجاری نقاشی، آہنگری" فرمایا کہ " ان صنعتوں کے مقابلہ میں رقم کچھ بہت نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا۔