الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائے۔ انہوں نے سمجھایا کہ رسول اللہ جو کچھ کرتے ہیں اسی میں مصلحت ہو گی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تسکین نہیں ہوئی۔ خود رسول اللہ کے پاس گئے اور اس طرح بات چیت کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! کیا آپ رسول خدا نہیں ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! بے شک ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کیا ہمارے دشمن مشرک نہیں ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ضرور ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! پھر ہم اپنے مذہب کو کیوں ذلیل کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا کے حکم کے خلاف نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ گفتگو اور خصوصاً انداز گفتگو اگرچہ خلاف ادب تھا، چنانچہ بعد میں ان کو سخت ندامت ہوئی۔ اور اس کے کفارہ کے لئے روزے رکھے۔ نفلیں پڑھیں، خیرات دی، غلام آزاد کئے ، (طبری 6 )۔ تاہم سوال و جواب کی اصل بناء اس نکتہ پر تھی کہ رسول کے کون سے افعال انسانی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور کون سے رسالت کے منصب سے۔ چنانچہ اس کی مفصل بحث کتاب کے دوسرے حصے میں آئے گی۔ غرض معاہدہ صلح لکھا گیا اور اس پر بڑے بڑے اکابر صحابہ کے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی داخل تھے دستخط ثبت ہوئے۔ معاہدہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا کہ مجھ پر وہ سورۃ نازل ہوئی جو مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیتیں پڑھیں " انا فتحنا لک فتحاً مبیناً" (صحیح بخاری واقعہ حدیبیہ) محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان اور کفار بالکل الگ الگ رہتے تھے۔ صلح ہو جانے سے آپ میں میل جول ہوا۔ اور رات دن کے چرچے اسلام کے مسائل اور خیالات روزبروز پھیلتے گئے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس کے اندر اندر جس کثرت سے لوگ اسلام لائے 18 برس قبل کی وسیع مدت میں نہیں لائے تھے۔ (فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 ذکر حدیبیہ)۔ جس بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح کی تھی اور لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فہم میں نہ آ سکی، وہ یہی مصلحت تھی۔ اور اسی بناء پر خدا نے سورۃ فتح میں اس صلح کو فتح سے تعبیر کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنی بیویوں کو طلاق دینا