الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
5 – مہمان خانے : مہمان خانے ، یہ مکانات اس لیے تعمیر کئے گئے تھے کہ باہر والے جو دو چار روز کے لیے شہر میں آ جاتے تھے وہ ان مکانات میں ٹھہرائے جاتے تھے۔ کوفہ میں جو مہمان خانہ بنا اس کی نسبت علامہ بلاذری نے لکھا ہے امر ان یتخذلمن یرد من الافاق دارا فکانوا ینزلونھا (فتوح البلدان صفحہ 278)۔ مدینہ منورہ کا مہمان خانہ 17 ہجری میں تعمیر ہوا۔ چنانچہ ابن حیان نے کتاب الثقاۃ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ اس موقع پر یہ بتانا ضروری ہے کہ عمارتوں کی نسبت یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ بڑی شان و شوکت کی ہوتی تھیں۔ اسلام فضول تکلفات کی اجازت نہیں دیتا۔ زمانہ بعد میں جو کچھ ہوا ہوا لیکن اس وقت تک اسلام بالکل اپنی سادہ اور اصلی صورت میں تھا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہایت اہتمام تھا کہ یہ سادگی جانے نہ پائے۔ اس کے علاوہ اس وقت تک بیت المال پر حاکم وقت کو آزادانہ اختیارات حاصل نہ تھے۔ بیت المال تمام قوم کا سرمایہ سمجھا جاتا تھا۔ اور لوگ اس کا اصلی مصرف یہ سمجھتے تھے کہ چونا پتھر کی بجائے زیادہ تر آدمیوں کے کام آئے۔ یہ خیال مدتوں تک رہا۔ اور اسی کا اثر تھا کہ جب ولید بن عبد الملک نے دمشق کی جامع مسجد پر ایک رقم کثیر صرف کر دی تو عام ناراضگی پھیل گئی۔ اور لوگوں نے علانیہ کہا کہ بیت المال کے روپیہ کا یہ مصرف نہیں ہے۔ بہرحال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جو عمارتیں بنیں وہ عموماً اینٹ اور گارے کی تھیں۔ بصرہ کا ایوان حکومت بھی اسی حیثیت کا تھا۔ (فتح البلدان صفحہ 347)۔ البتہ فوجی عمارتیں نہایت مضبوط اور مستحکم ہوتی تھیں۔ سڑکوں اور پلوں کا انتظام سڑکوں اور پلوں کا انتظام اگرچہ نہایت عمدہ تھا لیکن براہ راست حکومت کے اہتمام میں نہیں تھا۔ مفتوحہ قوموں سے جو معاہدہ ہوتا تھا اس میں یہ شرط بھی ہوتی تھی کہ وہ سڑک اور پل وغیرہ اپنے اہتمام اور اپنے صرف سے بنوائے گی۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام فتح کیا تو شرائط میں یہ امر بھی داخل تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 80 میں ہے۔ و علی ان علیھم ارشاد الضال و بناء القناطر علی الانھار من اموالھم۔ تاریخ طبری واقعات 16 ہجری صفحہ 240 میں سڑک اور پل دونوں کا ذکر ہے )۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک چوکیاں اور سرائیں