الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی۔ اور بالآخر وہ گرفتار ہو کر مدینہ سے جلا وطن کر دیئے گئے۔ اسلام کی تاریخوں میں یہودیوں سے لڑائیوں کا جو ایک متصل سلسلہ نظر آتا ہے اس کی ابتداء اسی سے ہوئی تھی۔ غزوہ سویق قریش بدر میں شکست کھا کر انتقام کے جوش میں بیتاب تھے۔ ابو سفیان نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک بدر کا انتقام نہ لوں گا غسل تک نہ کروں گا۔ چنانچہ ذوالحجہ 2 ہجری میں دو سو شتر سواروں کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچ کر دھوکے سے دو مسلمانوں کو پکڑا۔ اور ان کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کیا۔ لیکن ابو سفیان نکل گیا تھا۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بھی پیش آتے رہے یہاں تک کہ شوال 3 ہجری (635 عیسوی) میں جنگ احد کا مشہور واقعہ ہوا۔ غزوہ احد 3 ہجری اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ عکرمہ بن ابی جہل اور دیگر بہت سے سرداران قریش نے ابو سفیان سے جا کر کہا کہ تم مصارف کا ذمہ اٹھاؤ تو اب بھی بدر کا انتقام لیا جا سکتا ہے۔ ابو سفیان نے قبول کیا۔ اور اسی وقت حملہ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کنانہ اور تہامہ کے تمام قبائل بھی ساتھ ہو گئے۔ ابو سفیان ان کا سپہ سالار بن کر بڑے سر و سامان کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا۔ اور ماہ شوال بدھ کے دن مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر مقام کیا۔ آنحضرت کی رائے تھی کہ مدینہ میں ٹھہر کر قریش کا حملہ روکا جائے۔ لیکن صحابہ نے نہ مانا اور آخر مجبور ہو کر جمعہ کے دن مدینہ سے نکلے ، قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں 200 سوار اور 700 زرہ پوش تھے۔ میمنہ کے افسر خالد بن الولید اور میسرہ کے عکرمہ بن ابی جہل تھے۔ (اس وقت تک یہ دونوں صاحب اسلام نہیں لائے تھے ) ادھر کل 700 آدمی تھے جن میں سو زرہ پوش اور صرف دو سو سوار تھے۔ مدینہ سے قریباً تین میل پر احد ایک پہاڑ ہے ، اس کے دامن میں دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد اللہ بن جبیر کو 50 تیر اندازوں کے ساتھ فوج کے عقب پر متعین کیا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے پائیں۔ 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی، سب سے پہلے زبیر نے اپنی رکاب کی فوج کو لے کر حملہ کیا۔ اور قریش کے میمنہ کو شکست دی، پھر عام جنگ شروع ہوئی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو دجانہ دشمن کی فوج میں گھس گئے۔ اور ان کی صفیں الٹ دیں۔ لیکن فتح کے بعد لوگ غنیمت پر ٹوٹ پڑے ، تیر اندازوں نے سمجھا کہ اب معرکہ ختم ہو چکا ہے۔ اس خیال سے وہ بھی لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ تیر اندازوں کا ہٹنا تھا کہ خالد نے دفعتاً عقب سے بڑے زور و شور کے ساتھ حملہ کیا۔ مسلمان چونکہ ہتھیار ڈال کر غنیمت میں مصروف ہو چکے تھے۔ اس ناگہانی زد کو نہ روک سکے ، کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھروں اور تیروں کی بوچھاڑ کی۔ یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر زخم