الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
" یعنی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فارس کے چند آدمیوں کو صحبت خاص میں رکھتے تھے ، یہ لوگ ان کو بادشاہوں کے آئین حکومت پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ خصوصاً شاہان عجم اور ان میں بھی خاص کر نوشیروان کے اس لئے کہ ان کو نوشیروان کے آئین بہت پسند تھے اور وہ ان کی بہت پیروی کرتے تھے۔ " علامہ موصوف کے بیان کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ عموماً مؤرخوں نے لکھا ہے کہ جب فارس کا رئیس ہرمزان اسلام لایا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنے خاص درباریوں میں داخل کر لیا اور انتظامات ملکی کے متعلق اس سے اکثر مشورہ لیتے رہتے تھے۔ واقفیت حالات کے لئے پرچہ نویس اور واقعہ نگار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی کوشش اس بات پر مبذول رہتی تھی کہ ملک کا کوئی واقعہ ان سے مخفی نہ رہنے پائے۔ انہوں نے انتظامات ملکی کے ہر صیغہ میں پرچہ نویس اور واقعہ نگار مقرر کر رکھے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک کا ایک ایک جزئی واقعہ ان تک پہنچتا تھا۔ امام طبری لکھتے ہیں۔ و کان عمر لا یخفی علیہ شی فی عملہ کتب الیہ من العراق بخروج من خرج و من الشام بجایزۃ من اجیز فیھا۔ "یعنی عمر پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی۔ عراق میں جن لوگوں نے خروج کیا اور شام میں جن لوگوں کو انعام دیئے گئے سب تحریری اطلاعیں ان کو پہنچیں۔ " عراق کے ایک معرکہ میں سردار لشکر نے عمرو معدی کرب کو دوسرا حصہ نہیں دیا۔ عمرو معدی کرب نے وجہ پوچھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہارا گھوڑا دوغلا ہے اس لئے اس کا حصہ کم ہو گیا۔ معد کرب کو اپنی پہلوانی کا غرور تھا۔ بولے کہ ہاں، دوغلا ہی دوغلے کو پہچان بھی سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فوراً خبر ہوئی۔ عمرو معدی کرب کو سخت تنبیہ کی جس کی وجہ سے ان کو آئندہ پھر ایسی گستاخی کی جرات نہیں ہوئی۔ نعمان بن عدی میسان کے حاکم تھے۔ دولت و نعمت کے مزے میں پڑ کر انہوں نے اپنی بی بی کو ایک خط لکھا جس میں یہ شعر بھی تھا۔ لعل امیر المومنین یسوؤہ تنادمنا الجوسق المتھدم