الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کتاب کی تعلیم مکاتب میں لکھنا بھی سکھایا جاتا تھا۔ عام تور پر تمام اضلاع میں احکام بھیج دیئے تھے کہ بچوں کو شہسواری اور کتابت کی تعلیم دی جائے۔ ابو عامر جو رواۃ حدیث میں ہیں، ان کی زبان روایت ہے کہ میں بچپن میں گرفتار ہو کر مدینہ میں آیا۔ یہاں مجھ کو مکتب میں بٹھایا گیا۔ معلم مجھ سے جب میم لکھواتا تھا اور میں اچھی طرح نہیں لکھ سکتا تھا تو کہتا تھا گول لکھو جس طرح گائے کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ (معجم البلدان لغت حاضر، منجم میں اس روایت کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد کی نسبت لکھا لیکن خود صاحب معجم نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ اس وقت تک یہ مقامات فتح نہیں ہوئے تھے )۔ قراء صحابہ کا تعلیم قرآن کے لئے دور دراز مقامات پر بھیجنا صحابہ میں سے 5 بزرگ تھے جنہوں نے قرآن مجید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے زمانے میں پورا حفظ کر لیا تھا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ان میں خاص کر ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سید القراء تھے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس باب میں ان کی مدح کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سب کو بلا کر کہا کہ شام کے مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ آپ لوگ جا کر قرآن کی تعلیم دیجیئے۔ ابو ایوب ضعیف اور ابی بن کعب بیمار تھے اس لئے نہ جا سکے۔ باقی تین صاحبوں نے خوشی سے منظور کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہدایت کی کہ حمص کو جائیں۔ وہاں کچھ دنوں قیام کر کے جب تعلیم پھیل جائے تو ایک شخص کو وہیں چھوڑ دیں، باقی دو صحابیوں میں سے ایک دمشق اور ایک صاحب فلسطین جائیں۔ چنانچہ یہ سب لوگ پہلے حمص گئے۔ وہاں جب اچھی طرح بندوبست ہو گیا تو عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہیں قیام کیا۔ اور ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ دمشق اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فلسطین کو روانہ ہوئے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طاعون عمواس میں وفات پائی۔ (یہ تمام تفصیل کنز العمال جلد اول صفحہ 281 میں ہے اور اصل روایت طبقات ابن سعد کی ہے )۔ لیکن ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت تک زندہ اور دمشق میں مقیم رہے۔ تعلیم قرآن کا طریقہ ابو درداء کی تعلیم کا طریقہ جیسا کہ علامہ ذہبی نے طبقات القراء میں لکھا ہے ، یہ تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر جامع مسجد میں بیٹھ جاتے تھے۔ گرد قرآن پڑھنے والوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ دس آدمیوں کی الگ الگ جماعت کر دیتے