الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انی اعلم انک حجر و انک لا تضر ولا تنفع "میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ " تعظیم شعائر اللہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول مذاق عام سے جس قدر الگ تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ بہت سے محدثین نے جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے وہاں یہ روایت بھی اضافہ کی ہے کہ اسی وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو ٹوکا اور ثابت کیا کہ حجر اسود فائدہ اور نقصان دونوں پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ قیامت میں لوگوں کی نسبت شہادت دے گا۔ لیکن یہ اضافہ محض غلط اور بناوٹ ہے۔ چنانچہ ناقدین فن نے اس کی تصریح کی ہے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک درخت کے نیچے لوگوں سے جہاد پر بیعت لی تھی۔ اس بناء پر یہ درخت متبرک سمجھا جانے لگا اور لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیکھ کر اس کو جڑ سے کٹوا دیا۔ (ازالۃ الخفاء حصہ دوم صفحہ 91- علامہ زرقانی نے شرح مواہب لدنیہ میں بیعت رضوان کے واقعہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ ابن سعد نے طبقات میں اس واقعہ کو قلمبند صحیح روایت کیا ہے )۔ ایک دفعہ سفر حج سے واپس آ رہے تھے۔ راستے میں ایک مسجد تھی جس میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی تھی۔ اس خیال سے لوگ اس طرف دوڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اہل کتاب انہی باتوں کی بدولت تباہ ہوئے کہ انہوں نے پیغمبروں کی یادگاروں کو عبادت گاہ بنا لیا تھا۔ (ازالۃ الخفاء حصہ دوئم صفحہ 91)۔ نبی کے اقوال و افعال کہاں تک منصب نبوت سے تعلق رکھتے ہیں نبوت کی حقیقت کی نسبت عموماً لوگ غلطی کرتے آئے ہیں اور اسلام کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کا ہر قول و فعل خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے ذرا ہمت سے کام لے کر صرف معاشرت کی باتوں مو مستثنیٰ کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی جو حکم منصب نبوت کے تحت نبی کی حیثیت سے دیتا ہے وہ بے شبہ خدا کر طرف سے ہوتا ہے۔ باقی امور وقت اور ضرورت کے لحاظ سے ہوتے ہیں تشریعی اور مذہبی نہیں ہوتے۔ اس مسئلے کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بالکل صاف اور واضح کر دیا۔ خراج کی تشخیص، جزیہ کا تعین، ام ولد کی خرید و فروخت (یہ مسئلہ کہ بیع ام ولد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بند کی یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ، صحیح یہ ہے کہ منع حضور صلی