الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیکن ان کے مسائل میں اشتباہ اور ابہام اس قدر ہے کہ اگر نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی سے کام نہ کیا جائے تو ان کی حقیقت بالکل بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ مسائل قریباً تمام مذاہب میں مشترک تھے۔ تاہم کم و بیش سب میں غلطیاں واقع ہوئیں۔ اسلام انہی غلطیوں کو مٹانے کے لئے آیا اور تاکید کے ساتھ ان پر توجہ دلائی۔ لیکن چونکہ عام طبائع نکتہ سنج نہیں ہوتیں۔ اس لئے ہر زمانے میں اکثر لوگ اصل حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں اور اسی لئے ائمہ اور مجددین کی ضرورت باقی رہی کہ ان اسرار پر پردہ نہ پڑ جائے۔ مثلاً اسلام نے شرک کو کس قدر زور و شور سے مٹایا۔ لیکن غور سے دیکھو تو قبروں اور مزاروں کے ساتھ عوام تو ایک طرف بعض خواص کو جو طرز عمل ہے اس میں اب بھی کس قدر شرک کا مخفی اثر موجود ہے۔ گو استفادہ عن القبور اور حصول برکت کے خوشنما الفاظ نے ان پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان نازک اور مشتبہ مسائل میں جس طرح اصل حقیقت کو سمجھا اور جس جرات و دلیری سے اس کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا۔ اس کی نظیر صحابہ کے زمانے میں بہت کم ملتی ہے۔ مسئلہ قضا و قدر الٰہیات کا ایک بڑا نازک مسئلہ قضا و قدر کا مسئلہ ہے۔ جس میں عموماً بڑے بڑے ائمہ مذہب کو غلطیاں واقع ہوئیں۔ یہاں تک کہ اکابر صحابہ میں سے بھی بعض کو اشتباہ ہوا۔ طاعون عمواس کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شام کا سفر کیا تو مقام سرغ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں وبا کی نہایت شدت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپسی کا ارادہ کیا۔ حضرت ابو عبیدہ نے اس خیال سے کہ جو ہوتا ہے قضائے الٰہی سے ہوتا ہے نہایت طیش میں آ کر کہا کہ افرارا من قدر اللہ یعنی قضا الٰہی ہی بھاگتے ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نازک مسئلے کو ان مختصر اور بلیغ الفاظ میں حل فرمایا۔ (یہ واقعہ مفصل طور پر صحیح مسلم باب الطاعون میں مذکور ہے ) نعم نفر من قدر اللہ الی قدر اللہ یعنی " ہاں ہم خدا کے حکم سے خدا کے حکم کی طرف بھاگتے ہیں۔ " اسلام کا اصول شعائر اللہ کی تعظیم ہے۔ اسی بناء پر کعبہ اور حجر اسود وغیرہ کے احترام کا حکم ہے لیکن اس کی صورت صنم پرستی سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسی طرح کے اصولوں سے رفتہ رفتہ صنم پرستی قائم ہو گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو اس غلط فہمی میں پڑنے سے بار رکھنے کے لیے فرمایا :