الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے صائب کا نتیجہ تھا کہ قرآن مجید مدون مرتب ہوا، ورنہ حضرت ابو بکر اور زید بن ثابت (کاتب وحی) دونوں صاحبوں نے پہلے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔ تمام مذہبی اور ملکی اہم مسائل میں جہاں جہاں صحابہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اختلاف ہوا (باستثنائے بعض) عموماً عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائیں صائب نکلیں، ممالک مفتوحہ کے متعلق اکثر صحابہ متفق الرائے تھے کہ فوج کو تقسیم کر دیئے جائیں۔ ایک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس رائے کے خلاف تھے اور اگر لوگوں نے ان کی رائے کو نہ مانا ہوتا تو اسلامی مملکت آج کاشت کاری کے اعتبار سے بدتر ہو گئی ہوتی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں فتوحات کی آمدنی میں ہر شخص کا برابر حصہ لگاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حقوق اور کارگزاری کے فرق مراتب کے لحاظ سے مختلف شرحیں قرار دیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امہات اولاد کی خرید و فروخت کو جائز رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مخالفت کی۔ ان تمام واقعات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو جو ترجیح ہے وہ محتاج دلیل نہیں قابلیت خلافت کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے خلافت کے متعلق جب بحث پیدا ہوئی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کون اس بار گراں کو اٹھا سکتا ہے ؟ تو چھ صاحبوں کے نام لئے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر ایک سے متعلق خاص خاص رائیں دیں اور وہ سب صحیح نکلیں۔ نکتہ سنجی اور غور رسی وہ ہر کام میں غور و فکر کو عمل میں لاتے تھے اور ظاہری باتوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ : لا یعجبنکم من الرجال طنطنۃ "یعنی کسی کی شہرت کا آوازہ سن کر دھوکے میں نہ آؤ۔ " اکثر کہا کرتے تھے :