الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے دانے اچھالتے چلتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف اس قدر فرماتے تھے کہ دیکھو اونٹ بھڑکنے نہ پائیں۔ لوگوں نے رباح سے حدی گانے کی فرمائش کی۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیال سے رکے۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ ناراضی نہ ظاہر کی تو رباح نے گانا شروع کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی سنتے رہے۔ جب صبح ہو چلی تو فرمایا کہ " بس اب خدا کے ذکر کا وقت ہے (ازالۃ الخفاء صفحہ 204)۔ ایک دفعہ حج میں ایک سوار گاتا جا رہا تھا۔ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ اس کو منع نہیں کرتے۔ فرمایا کہ گانا شتر سواروں کا زاد راہ ہے (ازالۃ الخفاء صفحہ 19۔ خوات بن جبیر کا بیان ہے کہ ایک دفعہ سفر میں، میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا۔ ابو عبیدہ اور عبد الرحمٰن بن عوف بھی ہمرکاب تھے۔ لوگوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ ضرار کے اشعار گا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بہتر یہ ہے کہ اپنے اشعار گائیں چنانچہ میں نے گانا شروع کیا اور ساری رات گاتا رہا (ازالۃ الخفاء صفحہ 19 مزاج کی سختی مزاج قدرتی طور پر نہایت تند، تیز اور زود مشتعل واقع ہوا تھا۔ جاہلیت کے زمانے میں تو وہ قہر مجسم تھے۔ لیکن اسلام کے بعد بھی مدتوں تک اس کا اثر نہیں گیا۔ غزوہ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم ہے کافروں نے بنو ہاشم کو مجبور کر کے اپنے ساتھ لیا ورنہ وہ خود کبھی نہ آتے۔ اس لئے اگر ابو الخبری یا عباس وغیرہ کہیں نظر آئیں تو ان کو قتل نہ کرنا۔ ابو حذیفہ بول اٹھے کہ ہم اپنے باپ، بیٹے ، بھائی سے درگزر نہیں کرتے تو بنو ہاشم میں کیا خصوصیت ہے۔ واللہ اگر عباس مجھ کو ہاتھ آئیں گے تو میں ان کو تلوار کا مزہ چکھاؤں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی یہ گستاخی ناگوار گزری۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب ہو کر فرمایا ابو حفص (حضرت عمر کی کنیت تھی) دیکھتے ہو، عم رسول کا چہرہ تلوار کے قابل ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے آپے سے باہر ہو گئے۔ اور کہا کہ " اجازت دیجئے کہ میں اس کا سر اڑا دوں۔ " ابو حذیفہ بڑے رتبہ کے صحابی تھے ، اور یہ جملہ اتفاقیہ ان کی زبان سے نکل گیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے کچھ مؤاخذہ نہیں کیا۔ حاطب بن ابی بلتعہ ایک معزز صحابی تھے۔ اور غزوہ بدر میں شریک رہے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ ایک ضرورت سے کفار مکہ سے خفیہ خط و کتابت کی۔ یہ راز کھل گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ برافروختہ ہو کر آنحضرت کے پاس پہنچے کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔ مجھ کو اجازت دیجئے کہ اس کو قتل کر دوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابن الخطاب تجھ کو معلوم نہیں۔ خدا نے اہل بدر سے کہہ دیا ہے کہ تم جو چاہو کرو۔ میں سب معاف کر دوں گا۔ ذوالخویصرہ ایک شخص نے ایک دفعہ آنحضرت