الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غزوہ بدر سن 2 ہجری (624 عیسوی) 2 ہجری (624 عیسوی) میں بدر کا واقعہ پیش آیا جو نہایت مشہور معرکہ ہے۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ابو سفیان جو قریش کا سردار تھا، تجارت کا مال لے کر شام سے واپس آ رہا تھا کہ راہ میں یہ (غلط) خبر سن کر کہ مسلمان اس پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، قریش کے پاس قاصد بھیجا اور ساتھ ہی تمام مکہ امڈ آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ خبر سن کر تین سو آدمیوں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ عام مؤرخین کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مدینے سے نکلنا صرف قافلہ کے لوٹنے کی غرض سے تھا۔ لیکن یہ امر محض غلط ہے۔ قرآن مجید جس سے زیادہ کوئی قطعی شہادت نہیں ہو سکتی، اس میں جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے یہ الفاظ ہیں۔ کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و ان فریقاً من المومنین لکارھون یجادلونک فی الحق بعد ما تبین کانما یساقون الی الموت و ھم منطرون و اذیعد کم اللہ احدے الطائفتین انھا لکم و تودون ان غیر ذات الشوکۃ تکون لکم۔ " جیسا کہ تجھ کو تیرے پروردگار نے تیرے گھر (مدینہ) سے سچائی پر نکالا اور بیشک مسلمانوں کا ایک گروہ ناخوش تھا وہ تجھ سے سچی بات پر جھگڑتے تھے۔ بعد اس کے سچی بات ظاہر ہو گئی گویا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں اور وہ اس کو دیکھ رہے ہیں اور جب کہ خدا دو گروہوں میں سے ایک کا تم سے وعدہ کرتا تھا اور تم چاہتے تھے کہ جس گروہ میں کچھ زور نہیں ہے وہ ہاتھ آئے۔ " (۱) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ سے نکلنا چاہا تو مسلمانوں کا ایک گروہ ہچکچاتا تھا۔ اور سمجھتا تھا کہ موت کے منہ میں جانا ہے۔ (۲) مدینے سے نکلنے کے وقت کافروں کے دو گروہ تھے ایک غیر ذات الشوکۃ یعنی ابو سفیان کا کاروان تجارے اور دوسرا قریش کا گروہ مکہ سے حملہ کرنے کے لیے سر و سامان کے ساتھ نکل چکا تھا۔ اس کے علاوہ ابو سفیان کے قافلہ میں 40 آدمی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینے سے تین سو بہادروں کے ساتھ نکلے تھے۔ تین سو آدمی 40 آدمی کے مقابلہ کو کسی طرح موت کے منہ میں جانا نہیں خیال کر سکتے تھے۔ اس لئے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم قافلے کو لوٹنے کے لیے نکلتے تو خدا ہر گز قرآن مجید میں یہ نہ فرماتا کہ مسلمان ان کے مقابلے کو موت کے منہ میں جانا سمجھتے تھے۔