الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فقہا کی تنخواہیں ابن جوزی کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان فقہاء کی تنخواہیں بھی مقرر کی تھیں۔ اور درحقیقت تعلیم کا مرتب اور منظم سلسلہ بغیر اس کے قائم نہیں ہو سکتا تھا۔ معلمین فقہ کی رفعت شان یہ بات خاص طور پر ذکر کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن لوگوں کو تعلیم فقہ کے لیے انتخاب کیا تھا، مثلاً معاذ بن جبل، ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد الرحمنٰ بن غنم، عمران بن حصین اور عبد اللہ بن مغفل تمام جماعت اسلام میں منتخب تھے۔ اس کی تصدیق کے لئے اسد الغابہ اور اصابہ وغیرہ میں ان لوگوں کے حالات دیکھنے چاہییں۔ (تذکرۃ الحفاظ کراچی درداء)۔ ہر شخص فقہ کی تعلیم کا مجاز نہ تھا ایک بات اور بھی لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کی بڑی احتیاط کی کہ ہر شخص فقہ کے مسائل بیان کرنے کا مجاز نہ ہو۔ مسائل بھی خاص کر وہ تعلیم دیئے جاتے تھے جن پر صحابہ کا اتفاق رائے ہو چکا تھا۔ یا جو مجمع صحابہ میں پیش ہو کر طے کر لئے جاتے تھے۔ چنانچہ اس کی پوری تفصیل شاہ ولی اللہ صاحب نے نہایت خوبی سے لکھی ہے۔ ہم اس کے جستہ جستہ فقرے جو ہمارے بحث سے متعلق ہیں، اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔ معہذ ابعد عزم خلفہ بر چیزے مجال مخالفت نبود، در جمیع ایں امور شذرد نزر نمیر قنذ و بدون استطلاع رائے خلیفہ کارے را مصمم نمی ساختند لہذا دریں عصر اختلاف مذہب و تشت آر واقع نشد، ہمہ بریک مذہب متفق، بریک راہ مجتمع۔ چوں ایام خلافت خاصہ بالکلیہ متفرض شد و خلافت عامہ ظہور نمود علماء در ہر بلدے مشغول بافادہ شدند۔ ابن عباس در مکہ فتوی می و ہدو عائشہ صدیقہ و عبد اللہ بن عمر در مدینہ حدیث را روایت می نمائند و ابو ہریرہ او قات خود رابر اکشار، روایت حدیث مصروف مے سازو۔ بالجملہ دریں ایام اختلاف فتاوی پیدا شد یکے را بر رائے دیگر اطلاع نہ اگر اطلاع شدہ مذاکرہ واقع نہ واگر مذاکرہ بمیان آمد ازا ملت شبہ و خروج از مضیق اختلاف بفضائے اتفاق میسر نہ، اگر تتبع کنی روایت علمائے صحابہ کہ پیش از انقراض خلافت خاصہ از عالم گزشتہ اند بغایت کم یابی۔ و جمعے کہ اور ایام خلافت زندہ اند ہرچہ روایت کردہ اند۔ بعد ایام خلافت خاصہ رویت کردہ اند ہر چند جمیع صحابہ عدول اند و روایت ایشاں مقبول و عمل بموجب آنچہ بروایت صدق ایشان ثابت شود لازم امادرمیان