الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس معرکہ میں مخالف کی فوج سے جو لوگ زندہ گرفتار ہوئے ان کی تعداد کم و بیش 70 تھی۔ اور ان میں اکثر قریش کے بڑے بڑے سردار تھے۔ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عقیل (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی) ابو العاص بن الربیع، ولید بن الولید، ان سرداروں کا ذلت کے ساتھ گرفتار ہو کر آنا ایک عبرت خیز سماں تھا۔ جس نے مسلمانوں کے دل پر بھی اثر کیا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مبارکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نظر جب ان پر پڑی تو بے اختیار بول اٹھیں کہ " اعطیتم بایدیکم ھلا متم کراما" تم مطیع ہو کر آئے ہو۔ شریفوں کی طرح لڑ کر مر کیوں نہیں گئے۔ قیدیوں کے معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے اس بناء پر یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام صحابہ سے رائے لی۔ اور لوگوں نے مختلف رائیں دیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ اپنے ہی بھائی بند ہیں، اس لئے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اختلاف کیا اور کہا کہ اسلام کے معاملے میں رشتہ اور قرابت کو دخل نہیں۔ ان سب کو قتل کر دینا چاہیے۔ اور اسطرح کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے عزیز کو آپ قتل کر دے۔ علی عقیل کی گردن ماریں، حمزہ عباس کا سر اڑائیں، اور فلاں شخص جو میرا عزیز ہے اس کا کام میں تمام کروں (طبری 5)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شان رحمت کے اقتضاء سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پسند کی۔ اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ما کان لنبی ان یکون لہ اسرٰی حتیٰ یثخن فی الارض الخ "کسی پیغمبر کے لیے یہ زیبا نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ خوب خونریزی نہ کر لے۔ " بدر کی فتح نے اگرچہ قریش کے زور کو گھٹایا لیکن اس سے اور نئی مشکلات کا سلسلہ شروع ہوا۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف پر ایک مدت سے یہودیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو ملکی انتظامات کے سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یہودیوں سے معاہدہ کیا کہ " مسلمانوں کے برخلاف دشمن کو مدد نہ دیں گے اور کوئی دشمن مدینہ پر چڑھ آئے تو مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ " لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بدر سے فتح یاب آئے تو ان کو ڈر پیدا ہوا کہ مسلمان زور پکڑ کر ان کے برابر کے حریف نہ بن جائیں۔ چنانچہ خود چھیڑ شروع کی۔ اور کہا کہ " قریش والے فن حرب سے ناآشنا تھے۔ ہم سے کام پڑتا تو ہم دکھا دیتے کہ لڑنا اس کو کہتے ہیں" نوبت یہاں تک پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو معاہدہ کیا تھا توڑ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شوال 2 ہجری میں ان پر چڑھائی