الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
واقعہ حدیبیہ 6 ہجری (628 عیسوی) 6 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کا قصد کیا۔ اور اس غرض سے کہ قریش کو لڑائی کا شبہ نہ ہو، حکم دیا کہ کوئی شخص ہتھیار باندھ کر نہ چلے۔ ذوالحلیفہ (مدینہ سے چھ میل پر ایک مقام ہے ) پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال ہوا کہ اس طرح چلنا مصلحت نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی رائے کے موافق مدینہ سے ہتھیار منگوا لئے۔ جبکہ مکہ معظمہ دو منزل رہ گیا تو مکہ سے بشر بن سفیان نے آ کر خبر دی کہ "تمام قریش نے عہد کر لیا ہے کہ مسلمانوں کہ مکہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چاہا کہ اکابر صحابہ میں سے کسی کو سفارت کے طور بھیجیں کہ ہم کو لڑنا مقصود نہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس خدمت پر مامور کرنا چاہا۔ انہوں نے عرض کی کہ قریش کو مجھ سے سخت عداوت ہے اور میرے خاندان میں وہاں کوئی میرا حامی موجود نہیں۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزیز و اقارب وہیں ہیں، اس لئے ان کو بھیجنا مناسب ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رائے کو پسند کیا۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ بھیجا۔ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روک رکھا۔ اور جب کئی دن گزر گئے تو یہ مشہور ہو گیا کہ وہ شہید کر دیئے گئے۔ رسول اللہ نے یہ سن کر صحابہ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے جہاد پر بیعت لی۔ اور چونکہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی تھی، یہ واقعہ بیعت الشجرۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ قرآن مجید کی اس آیت میں " لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ" اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور آیت کی مناسبت سے اس کو بیعت رضوان بھی کہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت سے پہلے لڑائی کی تیاری شروع کر دی تھی۔ صحیح بخاری (غزوہ حدیبیہ) میں ہے کہ حدیبیہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ کو بھیجا کہ فلاں انصاری سے گھوڑا مانگ لائیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر نکلے تو دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں سے جہاد پر بیعت لے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی جا کر بیعت کی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس واپس آئے تو دیکھا کہ وہ ہتھیار سجا رہے ہیں۔ عبد اللہ نے ان سے بیعت کا واقعہ بیان کیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وقت اٹھے اور جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ قریش کو اصرار تھا کہ رسول اللہ مکہ میں ہر گز داخل نہیں ہو سکتے۔ بڑے رد و بدل کے بعد ان شرائط پر معاہدہ ہوا کہ اس دفعہ مسلمان الٹے واپس جائیں۔ اگلے سال آئیں۔ لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں، معاہدہ میں یہ شرط بھی داخل تھی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے۔ اور اس اثناء میں اگر قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ کے ہاں چلا جائے تو رسول اللہ اس کو قریش کے پاس واپس بھیج دیں۔ لیکن مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھ آ جائے تو ان کو اختیار کہ اس کو اپنے پاس روک لیں۔ اخیر شرط چونکہ بظاہر کافروں کے حق میں زیادہ مفید تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہایت اضطراب ہوا۔ معاہدہ ابھی لکھا نہیں جا چکا تھا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی