الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دروازہ ہے اور دمشق جو مغرب کا دروازہ ہے اور موصل جو مشرق و مغرب کی گزرگاہ ہے یعنی آدمی کسی طرف جانا چاہے تو اس کو یہاں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس شہر نے بھی رفتہ رفتہ نہایت ترقی کی۔ چنانچہ اس کی وسعت اور عظمت کے حالات معجم البلدان اور جغرافیہ بشاری وغیرہ میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ جیزہ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جو دریائے نیل کے غربی جانب فسطاط کے مقابل واقع ہے۔ عمرو بن العاص اسکندریہ کی فتح کے بعد فسطاط آئے۔ تو اس غرض کے لیے رومی دریا کی طرف نہ چڑھ آئیں، تھوڑی سی فوج اس مقام پر متعین کر دی جس میں حمیر اور ازد و ہمدان کے قبیلے کے لوگ تھے۔ فسطاط کی آبادی کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کو بلا لینا چاہا لیکن ان کو دریا کا منظر ایسا پسند آیا کہ وہ یہاں سے ہٹنا نہیں چاہتے تھے اور حجت یہ پیش کی کہ ہم جہاد کے لیے یہاں آئے تھے اور ایسے عمدہ مقصد کو چھوڑ کر اور کہیں نہیں جا سکتے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے حالات کی اطلاع حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی۔ وہ اگرچہ دریا کے نام سے گھبراتے تھے لیکن مصلحت دیکھ کر اجازت دی اور ساتھ ہی یہ حکم بھیجا کہ ان کی حفاظت کے لیے ایک قلعہ تعمیر کیا جائے۔ چنانچہ 21 ہجری میں قلعہ کی بنیاد پڑی اور 22 ہجری میں بن کر تیار ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب قلعہ بننا شروع ہوا تو قبیلہ ہمدان نے کہا کہ " ہم نامردوں کی طرح قلعہ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہمارا قلعہ ہماری تلوار ہے۔ " چنانچہ یہ قبیلہ اور ان کے ساتھ بعض اور قبیلوں نے قلعہ سے باہر کھلے میدان میں ڈیرے ڈال لئے اور ہمیشہ وہیں رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی برکت سے یہ چھوٹا سا مقام بھی علمی حیثیت سے خالی نہیں رہا۔ چنانچہ بڑے بڑے محدث یہاں پیدا ہوئے۔ ان میں بعض کے نام معجم البلدان میں مذکور ہیں۔ (جیزہ کے متعلق مقریزی نے نہایت تفصیل سے کام لیا ہے۔ )