الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دائرے سے بھی باہر سمجھتے۔ اسی فرق مراتب کے اصول پر بہت سی باتوں میں جو مذہب سے تعلق نہیں رکھتیں اپنی رایوں پر عمل کیا۔ مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک امہات اولاد یعنی وہ لونڈیاں جن سے اولاد پیدا ہو جائے برابر خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو بالکل روک دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ تبوک میں جزیہ کی تعداد فی کس ایک دینار مقرر کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف شرحیں مقرر کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں شراب کی کوئی خاص حد مقرر نہ تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی کوڑے مقرر کئے۔ یہ ظاہر ہے کہ ان معاملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و افعال اگر تشریعی حیثیت سے ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کیا مجال تھی کہ ان میں کمی بیشی کر سکتے۔ اور خدا نخواستہ وہ کرنا چاہتے۔ تو صحابہ کا گروہ ایک لحظہ کے لئے بھی ان کا مسند خلافت پر بیٹھنا کب گوارا کر سکتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امتیاز مراتب کی جرات اس وجہ سے ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعدد احکام میں جب انہوں نے دخل دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر ناپسندیدگی نہیں ظاہر کی۔ بلکہ متعدد معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی تائید کی۔ قیدیان بدر، حجاب ازواج مطہرات، نماز بر جنازہ منافق، ان تمام معاملات میں وحی جو آئی اس تفریق اور امتیاز کی وجہ سے فقہ کے مسائل پر بہت اثر پڑا۔ کیونکہ جن چیزوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات منصب رسالت کی حیثیت سے نہ تھے ان میں اس بات کا موقع باقی رہا۔ کہ زمانے اور حالات موجودہ کے لحاظ سے نئے قوانین وضع کئے جائیں۔ چنانچہ اس معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زمانے اور حالات کی ضرورتوں سے بہت سے نئے نئے قاعدے وضع کئے جو آج حنفی فقہ میں بکثرت موجود ہیں، برخلاف اس کے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہاں تک کد ہے کہ ترتیب فوج تعین شعار تشخیص محاصل وغیرہ کے متعلق بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال کو تشریعی قرار دیتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے افعال کی نسبت لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کسی کے قول و فعل کی کچھ اصل نہیں۔ خبر آحاد کے قابل ۔۔۔ ہونے کی بحث اس بحث کے بعد دوسرا مرحلہ خبر آحاد (یعنی وہ حدیث جس کا راوی ایک سے زیادہ نہ ہو۔ اصول حدیث کی رو سے جس حدیث کے راوی ایک سے زیادہ ہوں لیکن شہرت یا تواتر کی حد سے کم ہوں وہ بھی خبر آحاد میں داخل ہے۔ لیکن یہ بعد کی اصطلاح ہے۔ حضرت عمر کے زمانے تک ایک کا وجود نہ تھا۔ ) کی حیثیت حجت کا تھا۔ بہت سے اکابر اس قسم کی حدیثوں کو یہ درجہ دیتے ہیں کہ ان سے قرآن مجید کی منصوصات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ یعنی قرآن مجید کا کوئی حکم عام ہو تو خبر آحاد سے اس کی