الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حضرت عمر: نام و نسب – سن رشد و تربیت سلسلہ نسب یہ ہے کہ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک۔ اہل عرب عموماً عدنان یا قحطان کی اولاد ہیں۔ عدنان کا سلسلہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ عدنان کے نیچے گیارہویں پشت میں فہر بن مالک بڑے صاحب اقدار تھے۔ ان ہی کی اولاد ہے جو قریش کے لقب سے مشہور ہے۔ قریش کی نسل میں دس شخصوں نے اپنے زور لیاقت سے بڑا امتیاز حاصل کیا، اور ان کے انتساب سے دس جدا نامور قبیلے بن گئے۔ یعنی ہاشم، امیہ، نوفل، عبد الدار، اسد، تیم، مخزوم، عدی، جمح، سمح، حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عدی کی اولاد سے ہیں۔ عدی کے دوسرے بھائی مرۃ تھے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اجداد سے ہیں۔ اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ قریش چونکہ خانہ کعبہ کے مجاور بھی تھے۔ اس لئے دنیاوی جاہ و جلال کے ساتھ مذہبی عظمت کا چھتر بھی ان پر سایہ فگن تھا۔ تعلقات کی وسعت اور کام کے پھیلاؤ سے ان لوگوں کے کاروبار کے مختلف صیغے پیدا ہو گئے تھے۔ اور ہر صیغے کا اہتمام جدا تھا۔ مثلاً خانہ کعبہ کی نگرانی، حجاج کی خبر گیری، سفارت، شیوخ قبائل کا انتخاب، فصل مقدمات، مجلس شورا وغیرہ وغیرہ، (عدی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جد اعلیٰ تھے ) اس صیغوں میں سفارت کے صیغے کے افسر تھے۔ یعنی قریش کو کسی قبیلے کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آتا تو یہ سفیر بن کر جایا کرتے۔ (یہ تمام تفصیل عقد الفرید باب فضائل عرب میں ہے )۔ اس کے ساتھ منافرہ کے معرکوں میں ثالث بھی ہوا کرتے تھے۔ عرب میں دستور تھا کہ برابر کے دو رئیسوں میں سے کسی کو افضلیت کا دعویٰ ہوتا تو ایک لائق اور پایہ شناس ثالث مقرر کیا جاتا۔ اور دونوں اس کے سامنے اپنی اپنی ترجیح کے دلائل بیان کرتے۔ کبھی کبھی ان جھگڑوں کو اس قدر طور ہوتا کہ مہینوں معرکے قائم رہتے۔ جو لوگ ان معرکوں میں حکم مقرر کئے جاتے ان میں معاملہ فہمی کے علاوہ فضاحت اور زور تقریر کا جوہر بھی درکار ہوتا، یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلاً بعد نسل چلے آتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جد امجد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دادا نفیل بن عبد العزیٰ نے اپنے اسلاف کی طرح ان خدمتوں کو نہایت قابلیت سے انجام دیا اور اس وجہ سے بڑے عالی رتبہ لوگوں کے مقدمات ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے آتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جد امجد عبد المطلب اور حرب بن امیہ میں جب ریاست کے دعویٰ پر نزاع ہوئی تو دونوں نے نفیل ہی کو حکم مانا۔ نفیل نے عبد المطلب کے حق میں فیصلہ کیا۔ اور اس وقت کی طرف مخاطب ہو کر یہ جملے کہے :