الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمری میں، جو بیروت میں واقع ہے ، راقم کو بھی نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ محدث جمال الدین نے روضۃ الاحباب میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ یہ خاص تعداد گو قطعی نہ ہو لیکن کچھ شبہ نہیں کہ مساجد فاروقی کا شمار ہزاروں سے کم نہ تھا۔ حرم محترم کی وسعت حرم محترم کی عمارت کو وسعت دی اور اس کی زیب و زینت پر توجہ کی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام کو جو روز افزوں وسعت ہوتی جاتی تھی۔ اس کے لحاظ سے حرم محترم کی عمارت کافی نہ تھی۔ اس لئے سنہ 17 ہجری میں گرد و پیش کے مکانات مول لے کر ڈھا دیئے اور ان کی زمین حرم کے صحن میں شامل کر دی۔ اس زمانے تک حرم کے گرد کوئی دیوار نہ تھی اور اس لئے اس کی حد عام مکانات سے ممتاز نہ تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احاطہ کی دیوار کھنچوائی اور اس سے یہ کام بھی لیا کہ اس پر رات کو چراغ جلائے جاتے تھے۔ (موطا امام محمد صفحہ 229)۔ کعبہ پر غلاف اگرچہ ہمیشہ سے چڑھایا جاتا تھا۔ چنانچہ جاہلیت میں بھی فطع کا غلاف چڑھاتے تھے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قباطی کا بنوایا جو نہایت عمدہ قسم کا کپڑا ہوتا ہے۔ (الاحکام السلطانیہ للماوردی 154 فتوح البلدان صفحہ 26)۔ اور مصر میں بنایا جاتا ہے ، حرم کی حدود سے (جو کسی طرف سے تین میں اور کسی طرف سے 7 میل اور 9 میل ہیں) چونکہ بہت سے شرعی احکام متعلق ہیں چنانچہ اسی غرض سے ہر طرف پتھر کھڑے کر دیے گئے تھے جو انصاف حرم کہلاتے تھے۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سن 17 ہجری میں نہایت اہتمام اور احتیاط سے اس کی تجدید کی۔ صحابہ میں جو لوگ حدود حرم کے پورے واقف کار تھے یعنی مخزمہ بن نوفل، ازہر بن عبد عوف، جویطیب بن عبد العزی، سعید بن یربوع کو اس کام پر مامور کیا اور نہایت جانچ کے ساتھ پتھر نصب کئے گئے۔ مسجد نبوی کی وسعت اور مرمت مسجد نبوی کو بھی نہایت وسعت اور رونق دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں جو عمارت تیار ہوئی تھی وہ اس عہد کے لئے کافی تھی۔ لیکن مدینہ کی آبادی روز بروز ترقی کرتی جاتی تھی۔ اور اس وجہ سے نمازیوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔ سنہ 17 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو وسیع کرنا چاہا۔ گرد و پیش کے تمام مکانات قیمت دے کر خرید لئے۔ لیکن حضرت عباس نے اپنے مکان کے بیچنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافی معاوضہ دیتے تھے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے۔ آخر مقدمہ ابی بن کعب کے پاس گیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جبراً خریدنے کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اب میں بلا