الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہاں تک کہ (662 عیسوی) 13 نبوی میں جناب رسالت صلی اللہ علی و سلم نے مکہ چھوڑا اور آفتاب رسالت مدینہ کے افق سے طلوع ہوا۔ مہاجرین اور انصار میں اخوت مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام کیا۔ انصار کو بلا کر ان میں اور مہاجرین میں برادری قائم کی جس کا اثر یہ ہے کہ جو مہاجر جس انصاری کا بھائی بن جاتا انصاری مہاجر کو اپنی جائیداد، اسباب، نقدی تمام چیزوں میں آدھا آدھا بانٹ دیتا تھا۔ اس طرح تمام مہاجرین اور انصار بھائی بھائی بن گئے۔ اس رشتہ کے قائم کرنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم طرفین کے رتبہ اور حیثیت کا فرق مراتب ملحوظ رکھتے تھے ، یعنی جو مہاجر جس درجے کا ہوتا اسی رتبے کے انصاری کو اس کا بھائی بناتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلامی بھائی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جس کا بھائی قرار دیا، ان کا نام عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا، جو قبیلہ بنو سالم کے سردار تھے (دیکھو سیرت ابن ہشام حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری () میں عتبان کی بجائے اوس بن خولی کا نام لکھا ہے لیکن تعجب ہے کہ خود موصوف نے اصایہ میں ابن سعد کے حوالہ سے عتبان ہی کا نام لکھا ہے اور اوس بن خولی کا جہاں حال لکھا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اخوت کا ذکر نہیں کیا)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریف لانے پر بھی اکثر صحابہ نے قباء ہی میں قیام رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہیں مقیم رہے۔ لیکن یہ معمول کر لیا کہ ایک دن ناغہ دے کر بالالتزام آنحضرت صلی اللہ علی و سلم کے پاس جاتے اور دن بھر خدمت اقدس میں حاضر رہتے۔ ناغہ کے دن یہ بندوبست کیا تھا کہ ان کے برادر اسلامی عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اور جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سنتے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر روایت کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری نے متعدد ابواب مثلاً العلم، باب النکاح وغیرہ میں ضمناً اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ مدینہ پہنچ کر اس بات کا وقت آیا کہ اسلام کے فرائض و ارکان محدود اور معین کئے جائیں کیونکہ مکہ معظمہ میں جان کی حفاظت ہی سب سے بڑا فرض تھا، یہی وجہ تھی کہ زکوٰۃ، روزہ، نماز جمعہ، نماز عیدین، صدقہ فطر کوئی چیز وجود میں نہیں آئی تھی۔ نمازوں میں بھی یہ اختصار تھا کہ مغرب کے سوا باقی نمازوں میں صرف دو دو رکعتیں تھیں۔ یہاں تک کہ نماز کے لئے اعلان کا طریقہ بھی نہیں معین ہوا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا انتظام کرنا چاہا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں نماز کے اعلان کے لئے بوق اور ناقوس کا رواج تھا۔ اس لئے صحابہ نے یہی رائے دی، ابن ہشام نے