الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے دم نہ مارا اور خود حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی قسم کا خیال دل میں نہ لا سکے۔ امیر معاویہ اور عمرو بن العاص کی شان و شوکت محتاج بیان نہیں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ان کو لرزہ آتا تھا۔ عمرو بن العاص کے بیٹھے عبد اللہ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا پیٹا تھا۔ عمرو بن العاص کے سامنے ان کو اسی مضروب کے ہاتھ سے کوڑے لگوائے اور باپ بیٹے دونوں عبرت کا تماشا دیکھا کئے۔ سعد وقاص فاتح ایران کو معمولی شکایت پر جواب دہی میں طلب کیا تو ان کے بے عذر حاضر ہونا پڑا۔ ان واقعات سے ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سیاست و تدبیر کے فن میں جو کمال حاصل تھا۔ کسی مدبر اور فرمانروا کے حالات میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ ان کی حکومت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی۔ آئین حکومت میں شاہ و گدا، شریف و رذیل، عزیز و بیگانہ سب کا ایک رتبہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت کی خصوصیتیں جبلہ بن الایہم غسانی، شام کا مشہور رئیس بلکہ بادشاہ تھا اور مسلمان ہو گیا۔ کعبہ کے طواف میں اس کی چادر کا گوشہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے آ گیا۔ جبلہ نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا۔ اس نے بھی برابر جواب دیا۔ جبلہ غصے سے بے تاب ہو گیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی شکایت سن کر کہا " تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی" اس کو سخت حیرت ہوئی اور کہا کہ "ہم اس رتبہ کے لوگ ہیں کہ کوئی ہمارے آگے گستاخی سے پیش ہو تو قتل کا مستحق ہوتا ہے۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا "جاہلیت میں ایسا ہی تھا لیکن اسلام نے پست و بلند کو ایک کر دیا" اگر اسلام ایسا مذہب ہے جس میں شریف و رذیل کی کچھ تمیز نہیں، تو میں اسلام سے باز آتا ہوں۔ غرض وہ چھپ کر قسطنطنیہ چلا گیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی خاطر سے قانون انصاف کو بدلنا گوارا نہیں کیا۔ ایک دفعہ ملک کے عہدیداروں کو حج کے زمانے میں طلب کیا، اور مجمع عام میں کھڑے ہو کر کہا کہ جس کو ان لوگوں سے شکایت ہو پیش کرے۔ اس مجمع میں عمرو بن العاص گورنر مصر اور بڑے بڑے مرتبہ کے حکام اور عمال موجود تھے۔ ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ فلاں عامل نے بے وجہ مجھ کو سو درے مارے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اٹھ اور اپنا بدلہ لے۔ عمرو بن العاص نے کہا امیر المومنین اس طریق عمل سے تمام عمال بے دل ہو جائیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ