الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہم باہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے مسائل باہم ملتے جلتے ہیں۔ (فتح المغیث صفحہ 371)۔ صحابہ میں چھ شخص فقہ کے امام تھے محدثین کا عام بیا ن ہے کہ رسول اللہ کے اصحاب میں یہ چھ اشخاص تھے جن پر علم فقہ کا مدار تھا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ امام محمد رحمۃ اللہ نے کتاب الآثار میں ایک روایت نقل کی ہے۔ سنۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و سلم یتذا کرون الفقہ بینھم علی ابن ابی طالب و ابی و ابو موسیٰ علیٰحدہ و عمر و زید ابن مسعود علیٰحدہ یعنی اصحاب رسول میں چھ شخص تھے جو باہم مسائل فقہیہ میں بحث و مذاکرہ کرتے تھے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابی اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ایک ساتھ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ساتھ، صفوان ابن سلیم کا قول ہے لم یکن یفتی فی زمن النبی صلی اللہ علیہ و سلم گیر عمر و علی و معاذ ابی موسیٰ (تذکرہتہ الحفاظ علامہ ذہبی ذکر ابی موسیٰ اشعری) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں صرف چار شخص فتویٰ دیتے تھے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ امام شعبی کا مقولہ ہے کان العلم یوخذ عن ستۃ من الصحابتہ (فتح المغیث صفحہ 381) یعنی علم چھ صحابہ سے سیکھا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ تحدید بظاہر مستبعد معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ ہزاروں صحابہ میں صرف 4 یا 6 مفتیوں کی تعداد خلاف قیاس معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن میں حدیث صحیح، صاف اور مصرح موجود ہے اور کوئی حدیث اس کے معارض بھی نہیں۔ ان مسائل کے لئے فقط احادیث کا جاننا کافی ہے۔ اس کے برخلاف بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کی نسبت حدیث میں کوئی حکم بتصریح موجود نہیں بلکہ قواعد استنباط کے ذریعے سے حکم مستخرج ہوتا ہے یا حکم کی تصریح ہے لیکن اور حدیثیں اس کی معارض ہیں۔ ایسی صورتوں میں اجتہاد اور استنباط کی ضرورت پڑتی ہے اور فقہ دراصل اسی کا نام ہے۔ صحابہ میں ایسے بہت سے بزرگ تھے جو پہلی قسم کے مسائل کے متعلق فتویٰ دیتے اور مفتی کہلاتے تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد 20 تک پہنچتی ہے۔ لیکن دوسری قسم کے مسائل کا فیصلہ کرنا انہی لوگوں کا کام تھا جو فن کے بانی اور امام تھے اور اس درجہ کے لوگ وہی چھ بزرگ تھے جن کا اوپر ذکر گزرا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب چار صاحبوں یعنی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس کا نام لکھ کر لکھتے ہیں۔