الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ بن خلف الخزاعی کاتب دیوان تھے۔ (طبری 2657 و ابن خلکان صفحہ 253)۔ ہر صوبے میں ایک فوجی افسر بھی ہوتا تھا لیکن اکثر حالتوں میں صوبے کا عامل ہی اس خدمت پر مامور ہوتا تھا۔ پولیس کا محکمہ بھی جہاں تک ہم کو معلوم ہے ہر جگہ الگ نہ تھا۔ اکثر کلکٹر یا عامل اس خدمت کو بھی انجام دیتا تھا۔ مثلاً عمار بن یاسر جس وقت کوفے کے حاکم تھے پولیس کا محکمہ بھی انہی کے سپرد تھا۔ بحرین میں قدامتہ بن مظعون صاحب الخراج تھے اور پولیس افسر کا کام بھی کرتے تھے۔ والی کا اسٹاف وسیع اور مستقل اسٹاف ہوتا تھا اور اس کے ممبر خود دربار خلافت کی طرف سے مامور ہوتے تھے۔ عمار کو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ کا حاکم مقرر کیا تو دس معزز آدمی ان کے اسٹاف میں دیئے۔ جن میں ایک قزط خزرجی بھی تھے (اسد الغابہ تذکرہ قزط)۔ میر منشی قابل تقریر اور تحریر میں یکتا ہوتا تھا۔ ابو موسیٰ اشعری جو بصرہ کے گورنر تھے ان کا میر منشی زیاد بن سمیہ تھا۔ جس کی فصاحت و بلاغت پر خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران رہ گئے تھے۔ اور عمرو بن العاص کہا کرتے تھے کہ اگر یہ نوجوان قریش کی نسل سے ہوتا تو تمام عرب اس کے علم کے نیچے آ جاتا۔ اضلاع میں بھی عامل، افسر خزانہ اور قاضی وغیرہ ہوتے تھے۔ اور یہ سب گورنر کے ماتحت اور اس کے زیر حکومت کام کرتے تھے۔ پرگنوں میں غالباً صرف تحصیلدار رہتے تھے۔ اور اس کے ساتھ اس کا عملہ ہوتا تھا۔ صوبجات اور اضلاع کی تقسیم کے بعد سب سے مقدم جو چیز تھی ملکی عہدیداران کا انتخاب اور ان کی کاروائی کا دستور العمل بنانا تھا۔ کوئی فرمانروا کتنا ہی بیدار مغز اور کوئی قانون کتنا ہی مکمل ہو۔ لیکن جب تک حکومت کے اعضاء و جوارح یعنی عہدیداران ملکی قابل، لائق، راستباز اور متدوین نہ ہوں اور ان سے نہایت بیدار مغزی کے ساتھ کام نہ لیا جائے۔ ملک کو کبھی ترقی نہیں ہو سکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس باب میں جس نکتہ رسی اور تدبیر و سیاست سے کام لیا، انصاف یہ ہے کہ تاریخ عالم کے ہزاروں ورق الٹ کر بھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جوہر شناسی اس مرحلے میں اس بات سے بڑی مدد ملی کہ ان کی طبیعت شروع سے ہی جوہر شناس واقع ہوئی تھی۔ یعنی جس شخص میں جس قسم کی قابلیت ہوتی تھی وہ اس کی تہہ کو پہنچ جاتے تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ملک کے قابل آدمیوں سے واقفیت بہم پہنچائی تھی۔ یہی بات تھی کہ انہوں نے جس شخص کو جو کام دیا اس کے انجام دینے کے لیے اس سے بڑھ کر آدمی نہیں مل سکتا تھا۔ عرب میں چار شخص تھے ، جن کو وہاۃ العرب کہا جاتا تھا۔ یعنی جو فن سیاست و تدبیر میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔