الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیت المال کس سنہ میں قائم ہوا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رائے دی کو جو رقم آئے وہ سال کے سال تقسیم کر دی جائے اور خزانے میں جمع نہ رکھی جائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے خلاف رائے دی۔ ولید بن ہشام نے کہا میں نے سلاطین شام کے ہاں دیکھا ہے کہ خزانہ اور دفتر کا جدا جدا محکمہ قائم ہے۔ آج کل کا زمانہ ہوتا تو غیر مذہب والوں کے نام سے اجتناب کیا جاتا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس رائے کو پسند کیا۔ اور بیت المال کی بنیاد ڈالی۔ سب سے پہلے دارالخلافہ یعنی مدینہ منورہ میں بہت بڑا خزانہ قائم کیا۔ اور چونکہ اسی کی نگرانی اور حساب کتاب کے لیے نہایت قابل اور دیانتدار آدمی کی ضرورت تھی۔ بیت المال کے افسر عبد اللہ ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے اور لکھنے پڑھنے میں کمال رکھتے تھے ، خزانہ کا افسر مقرر کیا۔ اس کے ساتھ اور لائق لوگ ان کے ماتحت مقرر کئے جن میں عبد الرحمنٰ بن عبید القاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معیقب بھی تھے۔ (کتب رجال میں معیقب دیکھو)۔ معیقب کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے انگشتری بردار تھے اور اس وجہ سے ان کی دیانت داری اور امانت ہر طرح پر قطعی اور مسلم الثبوت تھی۔ دارالخلافہ کے علاوہ تمام صوبجات اور صدر مقامات میں بیت المال قائم کئے۔ اور اگرچہ وہاں کے اعلیٰ حکام کو ان کے متعلق ہر قسم کے اختیارات حاصل تھے۔ لیکن بیت المال کا محکمہ بالکل الگ ہوتا تھا اور اس کے افسر جداگانہ ہوتے تھے۔ مثلاً اصفہان میں خالد بن حرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کوفہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاص خزانے کے افسر تھے۔ بیت المال کی عمارتیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ تعمیر کے باب میں نہایت کفایت شعاری کرتے تھے لیکن بیت المال کی عمارتیں مستحکم اور شاندار بنوائیں۔ کوفہ میں بیت المال کے لیے اول ایک محل تعمیر ہوا جس کو روزابہ ایک مشہور مجوسی معمار نے بنایا تھا اور جس کا مصالحہ خسروان فارس کی عمارت سے آیا تھا۔ لیکن جب اس میں نقب کے ذریعے چوری ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ مسجد کی عمارت بیت المال سے ملا دی جائے۔ کیونکہ مسجد نمازیوں