الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فوجی چھاؤنیاں کس اصول پر قائم تھیں؟ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قدر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں انہیں مقامات میں کیں جو ساحل پر واقع تھے یا ایشیائے کوچک کے ناکے پر تھے۔ عراق کی حالت اس سے مختلف تھی کیونکہ وہاں سلطنت کے سوا ملک کے بڑے بڑے رئیس جو مرزبان کہلاتے تھے اپنی بقائے ریاست کے لئے لڑتے رہتے تھے اور دب کر مطیع بھی ہو جاتے تھے لیکن ان کی اطاعت پر اطمینان نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے ان ممالک میں ہر جگہ فوجی سلسلہ کا قائم رکھنا ضروری تھا کہ مدعیان ریاست بغاوت کا خواب نہ دیکھنے پائیں۔ فوجی دفتر کی وسعت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سلسلے کے ساتھ انتظامات کے اور صیغوں پر بھی توجہ کی اور ایک ایک صیغے کو اس قدر منظم کر دیا کہ اس وقت کے تمدن کے لحاظ سے ایک معجزہ سا معلوم ہوتا ہے۔ فوجوں کی بھرتی کا دفتر جس کی ابتداء مہاجرین اور انصار سے ہوئی تھی وسیع ہوتے ہوتے قریباً تمام عرب کو محیط ہو گیا۔ مدینہ سے عسفان تک جو مکہ معظمہ سے دو منزل ادھر ہے ، جس قدر قبائل آباد تھے ایک ایک کی مردم شماری ہو کر رجسٹر بنے۔ بحرین جو عرب کا انتہائی صوبہ ہے بلکہ عرب کے جغرافیہ نویس اس کو عراق کے اضلاع میں شمار کرتے ہیں، وہاں کے تمام قبائل کا دفتر تیار کیا گیا۔ کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، جیزہ وغیرہ میں جس قدر عرب آباد ہو گئے تھے سب کے رجسٹر مرتب ہوئے۔ اس بے شمار گروہ کی علیٰ قدر مراتب تنخواہیں مقرر کی گئیں۔ اور اگرچہ ان سب کا مجموعی شمار تاریخوں سے معلوم نہیں ہوتا، تاہم قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم آٹھ دس لاکھ ہتھیار بند آدمی تھے۔ ہر سال 30 ہزار نئی فوج تیار ہوتی تھی ابن سعد کی روایت ہے کہ ہر سال 30 ہزار نئی فوج فتوحات پر بھیجی جاتی تھی۔ کوفہ کی نسبت علامہ طبری نے تصریح کی ہے کہ وہاں ایک لاکھ آدمی لڑنے کے قابل بسائے گئے جن میں سے 40 ہزار باقاعدہ فوجی تھے یعنی ان کو باری باری سے ہمیشہ رے اور آذر بائیجان کی مہمات میں حاضر رہنا ضروری تھا۔ یہی نظام تھا جس کی بدولت ایک مدت تک تمام دنیا پر عرب کا رعب و داب قائم رہا۔ اور فتوحات کا سیلاب برابر بڑھتا گیا۔ جس قدر اس نظام میں کمی ہوتی گئی عرب کی طاقت میں ضعف آتا گیا۔ سب سے پہلے امیر معاویہ نے اس میں تبدیلی کی یعنی