الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غلاموں کے لیے بڑی تکلیف کی بات یہ تھی کہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے جدا کر دیئے جاتے تھے۔ بیٹا باپ سے چھٹ جاتا تھا۔ بیٹی ماں سے بچھڑ جاتی تھی۔ آج جو لوگ غلامی کی برائیوں پر مضامین لکھتے ہیں وہ اسی واقعہ کو درد انگیز صورت میں دکھاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ قاعدہ مقرر کیا کہ کوئی غلام اپنے عزیز و اقارب سے جدا نہ کیا جائے ، یعنی یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ بیٹا کسی کے ہاتھ آئے اور باپ کسی اور کی غلامی میں رہے۔ باپ، بیٹے ، بھائی، بہن، ماں، بیٹیاں بکتی تھیں تو ساتھ بکتی تھیں اور جن کی غلامی میں رہتی تھیں ساتھ رہتی تھیں۔ اس باب میں ان کے جو احکام ہیں ان کو کنز العمال میں مستدرک حاکم بیہقی مصنف بن ابی شیبہ وغیرہ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے : لا یفوق بین اخوین اذا یبعا لا یفرق ابین الام و ولدھا لا یفرق بین السبایا و اولادھن۔ " یعنی جب دو بھائی بیچے جائیں تو ایک دوسرے سے جدا نہ بیچا جائے یعنی بچہ ماں سے الگ نہ کیا جائے یعنی لونڈی غلام جو گرفتار ہو کر آئیں تو بچے ماں سے علیحدہ نہ کئے جائیں۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس باب میں تمام مہاجرین اور انصار کو جمع کر کے قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا " و تقطعوا ارحامکم" اور کہا کہ اس سے بڑھ کر قطع رحم کیا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ حاکم اور بیہقی نے نقل کیا ہے۔ (کنزالعمال جلد 2 صفحہ 622)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسمط ابن اسود ایک افسر کو شام کی مہمات پر بھیجا اور ان کے بیٹے شرجیل کو کوفہ میں کسی کام پر مامور کیا تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی کہ آپ جب غلام کو اپنے عزیزوں سے جدا نہیں ہونے دیتے تو مجھ کو کیوں بیٹے سے دور پھینک دیا؟ (فتوح البلدان صفحہ 138)۔ غلاموں میں اہل کمال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلاموں کا جو رتبہ قائم کیا اور عرب کو جو نمونے دکھلائے اس کا یہ اثر ہوا کہ غلاموں کے گروہ میں بڑے بڑے صاحب کمال لوگ پیدا ہوئے جن کی تمام ملک عزت و توقیر کرتا تھا۔ عکرمہ جو ائمہ حدیث میں شمار کئے جاتے تھے اور جن کو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتویٰ کی اجازت دی تھی۔ نافع جو امام مالک کے استاد تھے اور جن کی روایت کے سلسلے کو محدثین سلسلۃ الذہب یعنی سونے کی زنجیر سے تعبیر کرتے ہیں، یہ دونوں بزرگ غلام تھے اور اسی عہد کی تربیت یافتہ تھے۔