الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صورت خاص کے لیے یہ قرار دیا کہ خاندان والے اس کو اصطباغ نہ دیں اور عیسائی نہ بنائیں اور یہ حکم بالکل قرین انصاف ہے۔ کیونکہ جب اس کا باپ مسلمان ہو گیا تو اس کی نابالغ اولاد بھی بظاہر مسلمان قرار پائے گی۔ علامہ طبری نے جہاں بنو تغلب کے واقعہ کا ذکر کیا ہے ، شرائط صلح میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں۔ علی ان لا ینصروا ولیداً ممن اسلم آباء ھم (طبری صفحہ 2423) یعنی بنو تغلب کو اختیار نہ ہو گا کہ جن کے باپ مسلمان ہو چکے ہیں اس کو عیسائی بنا سکیں۔ ایک اور موقع پر یہ الفاظ ہیں۔ ان لا ینصروا اولادھم اذا اسلم ابائھم (طبری صفحہ 35)۔ یہاں شاید یہ اعتراض ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک فرضی صورت قائم کر کے معاہدہ کو سخت کیوں کیا۔ لیکن جواب یہ ہے یہ فرضی صورت نہ تھی بلکہ بنو تغلب میں بہت سے لوگ اسلام قبول کر چکے تھے ، اس لیے ان کی خاص حالت کے لحاظ سے اس صورت کا ذکر ضروری تھا۔ بلکہ علامہ طبری نے صاف تصریح کی ہے کہ تغلب میں سے جو لوگ اسلام لا چکے تھے خود انہوں نے معاہدہ کے لیے یہ شرائط پیش کی تھیں۔ اب ہر شخص انصاف کر سکتا ہے کہ امن عام میں خلل نہ واقع ہونے کے لیے عیسائیوں کو اگرچہ یہ حکم دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی مجلس میں صلیب اور سور نہ لائیں۔ خاص نماز کے وقت ناقوس نہ بجائیں، نو مسلم کی اولاد کو اصطباغ نہ دیں تو کیا کوئی شخص اس کو تعصب مذہبی سے تعبیر کر سکتا ہے۔ لیکن افسوس اور سخت افسوس یہ ہے کہ ہمارے پچھلے مؤرخوں نے ان احکام کی قیدوں اور خصوصیتوں کو اڑا دیا۔ بلکہ قدماء میں بھی یہ لوگ تعصب آمیز طبیعت رکھتے تھے۔ روایت میں ان خصوصیتوں کو چھوڑ جاتے تھے ، یہ غلطیاں اگرچہ نہایت سخت نتائج پیدا کرتیں تھیں، لیکن چونکہ ظاہر میں خفیف تھیں۔ ابن الاثیر وغیرہ نے اس کو کچھ خیال نہیں کیا۔ رفتہ رفتہ یہ غلطیاں اس قدر پھیل گئیں کہ عربی زبان میں لکھی گئی تاریخ سرتاپا اس سے معمور ہو گئی۔ فقہاء چونکہ تاریخ سے بہت کم واقفیت رکھتے تھے ، انہوں نے بے تکلف انہی روایتوں کو قبول کر لیا اور ان پر فقہ کے مسائل تفریع کر لیے۔ عیسائیوں کے جلا وطن کرنے کا معاملہ عیسائیوں اور یہودیوں کے جلا وطن کرنے کے معاملے میں حقیقت یہ ہے کہ یہودی کسی زمانہ میں مسلمانوں کی طرف سے صاف نہیں ہوئے۔ خیبر جب فتح ہوا، ان سے کہہ دیا گیا کہ جس وقت مناسب ہو گا تم کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ان کی شرارتیں زیادہ ظاہر ہوئیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دفعہ بالا خانہ سے دھکیل دیا۔ جس سے ان کے ہاتھ میں زخم آیا۔ مجبوراً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عام مجمع میں کھڑے ہو کر