الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایسی اور بہت سے مثالیں ہیں۔ کوئی شخص چاہے تو ان سے اصول فقہ کے بہت سے کلیات منضبط کر سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسائل فقہیہ کی تعداد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فقہ کے جو مسائل بیان کئے ان میں اکثر ایسے ہیں جن میں اور صحابہ نے بھی ان کے ساتھ اتفاق کیا اور ائمہ مجتہدین نے ان کی تقلید کی۔ شاہ ولی اللہ صاحب اپنے استقراء سے اس قسم کے مسائل کی تعداد کم و بیش ایک ہزار بتاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے مسائل بھی ہیں جن میں دیگر صحابہ نے اختلاف کیا اور وہی حق پر ہیں مثلاً تیمم، جنابت، تمتع، حج، طلقات ثلث وغیرہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجتہاد سے دیگر صحابہ کا اجتہاد زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن اکثر مسائل اور خصوصاً ان مسائل سے جو معرکۃ الآراء رہے ہیں اور جن کو تمدن اور امور ملکی میں دخل ہے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمال اجتہاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض مسائل کا ذکر ہم اس موقع پر کرتے ہیں۔ خمس کا مسئلہ ایک بڑا معرکۃ الآراء مسئلہ خمس کا ہے۔ قرآن مجید میں ایک آیت ہے۔ واعلموا انما غنمتم من شئی فان اللہ خمسہ و للرسول ولذی القربیٰ ولیتمی والمسکین وابن السبیل۔ " جو کچھ تم کو جہاد کی لوٹ میں ہاتھ آئے ، اس کا پانچواں حصہ خدا کے لئے ہے اور پیغمبر کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے اور یتیموں کے لئے اور غریبوں کے لئے اور مسافروں کے لئے ہے۔ " اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ خمس میں رسول اللہ کے رشتہ داروں کا بھی حصہ ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی یہی رائے تھی اور حضرت علی نے اگرچہ مصلحتہً بنو ہاشم کو خمس میں سے حصہ نہیں دیا لیکن رائے ان کی بھی یہی تھی کہ بنو ہاشم واقعی حقدار ہیں۔ (کتاب الخراج صفحہ ۱۱، روایت محمد ابن اسحاق)۔