الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فوج کی نقل و حرکت، پرچہ نویسی کا انتظام، افسران فوجی کا انتخاب، قلعہ شکن آلات کا استعمال، یہ اور اس قسم کے امور کے متعلق کیا کیا انتظام خود ایجاد کئے۔ اور ان کو کس عجیب و غریب زور و قوت کے ساتھ قائم رکھا تو تم خود فیصلہ کر لو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغیر یہ کل مطلق کام نہیں دے سکتی تھی۔ عراق کی فتوحات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درحقیقت خود سپہ سالاری کا کام کیا تھا۔ فوج جب مدینہ سے روانہ ہوئی تو ایک ایک منزل بلکہ راستہ تک خود متعین کر دیا تھا اور اس کے موافق تحریری احکام بھیجتے رہتے تھے۔ فوج قادسیہ کے قریب پہنچی تو موقع کا نقشہ منگوا بھیجا اور اس کے لحاظ سے فوج کی ترتیب اور صف آرائی سے متعلق ہدائتیں بھجیں۔ جس قدر افسر جن جن کاموں پر مامور ہوتے تھے ، ان کے خاص حکم کے موافق مامور ہوتے تھے۔ تاریخ طبری میں عراق کے واقعات کو تفصیل سے دیکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ ایک بڑا سپہ سالار دور سے تمام فوجوں کو لڑا رہا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کے اشاروں پر ہوتا ہے۔ ان تمام لڑائیوں میں جو دس برس کی مدت میں پیش آئیں، سب سے زیادہ خطرناک دو موقعے تھے۔ ایک نہاوند کا معرکہ جب ایرانیوں نے فارس کے صوبہ جات میں ہر جگہ نقیب دوڑا کر تمام ملک میں آگ لگا دی تھی۔ اور لاکھوں فوج مہیا کر کے مسلمانوں کی طرف بڑھے تھے۔ دوسرے جب قیصر روم نے جزیرہ والوں کی اعانت سے دوبارہ حمص پر چڑھائی کی تھی۔ ان دونوں معرکوں میں صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حسن تدبیر تھی، جس نے ایک طرف ایک اٹھتے ہوئے طوفان کو دبا دیا۔ اور دوسری طرف ایک کوہ گراں کے پرخچے اڑا دیئے۔ چنانچہ ہم ان واقعات کی تفصیل پہلے حصے میں لکھ آئے ہیں۔ ان واقعات کی تفصیل کے بعد یہ دعویٰ صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ جب سے دنیا کی تاریخ معلوم ہے آج تک کوئی شخص فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر فاتح اور کشور کشا نہیں گزرا جو فتوحات اور عدل دونوں کا جامع ہو۔ نظام حکومت اسلام میں خلافت یا حکومت کی بنیاد اگرچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں پڑی۔ لیکن حکومت کا دور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو سالہ خلافت میں اگرچہ بڑی بڑی مہمات کا فیصلہ وا۔ یعنی عرب کے مرتدوں کا خاتمہ ہو گیا۔ اور بیرونی فتوحات شروع ہوئیں۔ تاہم حکومت کا کوئی خاص نظام نہیں قائم ہوا۔ اور نہ اتنا مختصر زمانہ اس کے لیے کافی ہو سکتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک طرف تو فتوحات کو