الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تمام امور کا اس خوبی سے انتظام کیا کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ قانون بنانے کی تو کوئی ضرورت نہ تھی۔ اسلام کا اصلی قانون قرآن مجید موجود تھا۔ البتہ چونکہ اس میں جزئیات کا احاطہ نہیں، اس لیے حدیث و اجماع و قیاس سے مدد لینے کی ضرورت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قضاۃ کو خاص طور پر اس کی ہدایت لکھی۔ قاضی شریح کو ایک فرمان میں لکھا کہ مقدمات میں اول قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرو۔ قرآن میں وہ صورت مذکور نہ تو حدیث، اور حدیث نہ ہو تو اجماع (کثرت رائے ) کے مطابق اور کہیں پتہ نہ لگے تو خود اجتہاد کرو۔ (کنز العمال صفحہ 174 جلد 3 مسند داری میں بھی یہ فرمان تھوڑے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے چنانچہ اس کی اصلی عبارت یہ ہے : عن شریع ان عمر ابن الخطاب کتب الیہ ان جائک شی فی کتاب اللہ فاقض بہ فان جائک ما لیس فی کتاب اللہ فانظر سنۃ رسول اللہ فاقض بھا فان جائک ما لیس فی کتاب اللہ ولم یکن فی سنۃ رسول اللہ ولم یتکلم فیہ احد قبلک فاختری الا مرین شئت ان شئت ان تجتھدبرایک ثم تقدم و ان شئت تتاخرفنا خر ولا اری التاخر الا خیرالک۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ ہمیشہ وقتاً فوقتاً حکام عدالت کو مشکل اور مبہم مسائل کے متعلق فتاوے لکھ لکھ کر بھیجتے رہتے تھے۔ آج اگر ان کو ترتیب دیا جائے تو ایک مختصر مجموعہ قانون بن سکتا ہے۔ لیکن ہم اس موقع پر ان کا استقصا نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی چاہے تو کنز العمال اور ازالۃ الخفاء وغیرہ سے اس کی تصدیق کر سکتا ہے۔ اخبار القضاۃ میں بھی متعدد فتاوے مذکور ہیں۔ قضاۃ کا انتخاب قضاۃ کے انتخاب میں جو احتیاط اور نکتہ سنجی کی گئی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جو لوگ انتخاب کئے گئے وہ اس حیثیت سے تمام عرب میں منتخب تھے۔ پائے تخت یعنی مدینہ منورہ کے قاضی زید بن ثابت (اخبار القضاہ میں ہے ان عمر استعمل زید اعلی القضاء و فرض لہ رزقا۔ ) تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں کاتب وحی تھے۔ وہ سریانی اور عبرانی زبان کے بھی ماہر تھے اور علوم فقیہیہ میں سے فرائض کے فن میں تمام عرب میں ان کا جواب نہ تھا۔ کعب بن سور الازدی جو بصرہ کے قاضی تھے ، بہت بڑے معاملہ فہم اور نکتہ شناس تھے۔ امام ابن سیرین نے ان کے بہت سے فیصلے اور احکام نقل کیے ہیں (دیکھو اسد الغاتبہ فی احوال الصحابہ، و استیعاب قاضی ابن عبد البر تذکرہ کعب بن سور الازدی)۔ فلسطین کے قاضی عبادہ بن الصامت تھے جو منجملہ ان پانچ شخصوں کے ہیں۔ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں تمام قرآن مجید حفظ کیا تھا اور اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اہل صفہ کی تعلیم سپرد کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ