الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صفحہ 266 کتاب الخراج صفحہ 21)۔ لیکن اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ اہل فوج کے ہم زبان تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قدر رد و کد کی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دق ہو کر فرمایا " اللھم کفنی بلالا " یعنی " اے خدا مجھ کو بلال سے نجات دے۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ استدلال پیش کرتے تھے کہ اگر ممالک مفتوح فوج کو تقسیم کر دیئے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی حفاظت، ملک کے امن و امان قائم رکھنے کے مصارف کہاں سے آئیں گے۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ جن کی تلواروں نے ملک کو فتح کیا ہے انہی کو قبضے کا بھی حق ہے۔ آئندہ نسلیں مفت کیونکر پا سکتی ہیں۔ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت کا جمہوری طریقہ تھا۔ یعنی جو فیصلہ ہوتا تھا کثرت رائے پر ہوتا تھا، اس لیے عام اجلاس ہوا۔ جس میں تمام قدماء مہاجرین و انصار میں سے پانچ اور قبیلہ اوس اور قبیلہ خزرج کے سردار، وکیل کے طور پر شریک ہوئے۔ (کتاب الخراج صفحہ 14)۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا۔ تاہم کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ کئی دن تک یہ مرحلہ درپیش رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استدلال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفعتہً قرآن مجید کی ایک آیت یاد آئی جو بحث کے لیے نص قاطع تھی یعنی للفقرآء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم و امولھم الخ اس آیت کے آخر میں فقرے والذین جاء امن بعدھم سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ استدلال کیا کہ فتوحات میں آئندہ نسلوں کا بھی حق ہے لیکن اگر فاتحین کو تقسیم کر دیا جائے تو آنے والی نسلوں کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر نہایت پرزور تقریر کی اور اس آیت کو استدلال میں پیش کیا۔ تمام لوگ بول اٹھے کہ " بے شبہ آپ کی رائے بالکل صحیح ہے۔ " اس استدلال کی بناء پر یہ اصول قائم ہو گیا کہ جو ممالک فتح کئے جائیں وہ فوج کی ملک نہیں ہیں بلکہ حکومت کی ملک قرار پائیں گے اور پچھلے قابضین کو بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ اس اصول کے قرار پانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ممالک مفتوحہ کے بندوبست پر توجہ کی۔ عراق کا بندوبست عراق چونکہ عرب سے نہایت قریب اور عربوں کے آباد ہو جانے کی وجہ سے عرب کا ایک صوبہ بن گیا تھا۔ بندوبست کا طریقہ سب سے پہلے وہیں سے شروع کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک اصول یہ بھی تھا کہ ہر ایک ملک کے انتظام