الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فخر و غرور کا استیصال عرب میں جو اخلاق ذمیمہ، جاہلیت کی یادگار رہ گئے تھے وہ نسب کا فخر و غرور عام لوگوں کی تحقیر، ہجو و بد گوئی، عشق و ہوا پرستی، بادہ نوشی اور مے پرستی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تمام بیہودہ اخلاق کا استیصال کر دیا۔ جو چیزیں فخر و غرور کی علامت تھیں، بالکل مٹا دیں۔ لڑائیوں میں قبائل اپنے قبیلوں کی جے پکارتے تھے ، اس کو حکماً بند کر دیا۔ آقا اور نوکر کی جو تمیز تھی بالکل اٹھا دی۔ ایک دفعہ صفوان بن امیہ نے جب بہت سے معزز لوگوں کے ساتھ ان کی دعوت کی اور نوکروں کو کھانے پر نہیں بٹھایا تو نہایت برافروختہ ہو کر کہا کہ " خدا ان سے سمجھے جو نوکروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ " ایک دفعہ بہت سے لوگ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو بڑے رتبے کے صحابی تھے ملنے گئے۔ جب وہ مجلس سے اٹھے اور تعظیم کے لئے لوگ ان کے ساتھ ساتھ چلے ، اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ادھر آ نکلے۔ یہ حالت دیکھ کر ابی کے ایک کوڑا لگایا۔ ان کو تعجب ہوا اور کہا خیر ہے ! یہ آپ کیا کرتے ہیں؟ فرمایا او ماتری فتنۃ للمتبوع مذلۃً للگابع (اسد الغابہ ترجمہ زبر قان) یعنی تم نہیں جانتے یہ امر متبوع کے لئے فتنہ اور تابع کے لئے ذلت ہے۔ ہجو کی ممانعت ہجو و بد گوئی کا ذریعہ شعر و شاعری کا فن تھا۔ شعراء جا بجا لوگوں کی ہجو لکھتے تھے اور چونکہ عرب میں شعر کو رواج عام حاصل تھا، اس لئے یہ ہجویں نہایت جلد مشتہر ہو جاتی تھیں اور ان سے سینکڑوں مفاسد پیدا ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجو گوئی کو ایک جرم قرار دیا اور اس کے لئے سزا مقرر کی۔ چنانچہ یہ امر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ حطیہ اس زمانے کا مشہور شاعر تھا اور سودا کی طرح فن ہجو گوئی میں کمال رکھتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو طلب کر کے ایک تہہ خانے میں قید کیا اور اس شرط پر چھوڑا کہ پھر کبھی کسی کی ہجو نہیں لکھے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں قریش نے جب تدبیروں سے عاجز ہو کر مسلمانوں کی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں ہجویں کہنی شروع کیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حسان کو ترکی بترکی جواب دینے کی اجازت دی تھی۔ یہ اشعار قریش کے اسلام لانے کے بعد بھی متداول تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں حکم دیا کہ وہ نہ پڑھے جائیں کیونکہ ان سے پرانی رنجشیں تازہ ہوتی ہیں۔ (آغاز ندہ تذکرہ حسان بن ثابت 12)۔