الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہر سعد نہر سعد، اس نہر کے لیے انبار والوں نے پہلے شہنشاہ فارس سے درخواست کی تھی۔ اسلام کا زمانہ آیا تو ان لوگوں نے سعد وقاص (گورنر کوفہ) سے خواہش ظاہر کی۔ سعد نے سعد بن عمر کو مامور کیا۔ انہوں نے بڑے اہتمام سے کام کرایا۔ لیکن کچھ دور پہنچ کر پہاڑ بیچ میں آ گیا اور وہیں چھوڑ دی گئی۔ پھر حجاج نے اپنے زمانے میں پہاڑ کاٹ کر بقیہ کام پورا کیا۔ تاہم نہر سعد ہی کے نام سے مشہور ہوئی۔ نہر امیر المومنین سب سے بڑی اور فائدہ رساں نہر جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاص حکم سے بنی وہ نہر تھی جو نہر امیر المومنین کے نام سے مشہور ہے اور جس کے ذریعے سے دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملا دیا گیا تھا۔ اس میں مختصر تاریخ یہ ہے کہ 18 ہجری میں جب تمام عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام اضلاع کے حکام کو لکھا کہ ہر جگہ کثرت کے ساتھ غلہ اور اناج روانہ کیا جائے۔ اگرچہ اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ لیکن شام اور مصر سے جو خشکی کو جو راستہ تھا بہت دور دراز تھا۔ اس لیے غلہ کے بھیجنے میں پھر بھی دیر لگی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان وقتوں پر خیال کر کے عمرو بن العاص (گورنر مصر) کو لکھا کہ مصر کے باشندوں کی ایک جماعت ساتھ لے کر دارالخلافہ حاضر ہو۔ جب وہ آئے تو فرمایا کہ دریائے نیل کو اگر سمندر سے ملا دیا جائے تو عرب کو قحط گرانی کا کبھی اندیشہ نہیں ہو گا۔ ورنہ خشکی کی راہ غلہ کا آنا وقت سے خالی نہیں۔ عمرو نے واپس جا کر کام شروع کر دیا اور فسطات سے (جو قاہرہ سے دس بارہ میل ہے ) بحر قلزم تک نہر تیار کرائی۔ اس ذریعہ سے جہاز دریائے نیل سے چل کر قلزم میں آتے تھے۔ اور یہاں سے جدہ پہنچ کر لنگر کرتے جو مدینہ منورہ کی بندرگاہ تھی۔ یہ نہر تقریباً 96 میل لمبی تھی اور تعجب یہ ہے کہ چھ مہینے میں تیار ہو گئی۔ چنانچہ پہلے ہی سال 20 بڑے بڑے جہاز جن میں ساٹھ ہزار اردب غلہ بھرا ہوا تھا، اس نہر کے ذریعے سے مدینہ منورہ کی بندرگاہ میں آئے۔ یہ نہر مدتوں تک جاری رہی اور اس کے ذریعے سے مصر کی تجارت کو نہایت ترقی ہوئی۔ عمر بن عبد العزیز کے عمالوں نے بے پروائی کی اور وہ جا بجا سے اٹ گئی۔ یہاں تک کہ مقام ذنب المساح تک آ کر بالکل بند ہو گئی۔ 105 ہجری میں منصور عباسی نے ایک ذاتی مصلحت سے اس کو بند کر دیا۔ لیکن بعد کو پھر جاری ہو گئی اور مدتوں جاری رہی۔ (یہ تفصیل حسن المحاضرہ سیوطی صفحہ 93 تا 94 مقریزی جلد اول صفحہ 71 و جلد دوم صفحہ 139 تا 144 میں ہے )۔ ایک اور عجیب و غریب بات یہ کہ عمرو بن العاص نے بحر روم و بحر قلزم کو براہ راست ملا دینے کا ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے موقع اور جگہ کی تجویز بھی کر لی تھی۔ اور چاہا تھا کہ فرما کے پاس سے جہاں سے بحر روم اور بحر قلزم میں صرف 70