الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ذاتی حالات اور اخلاق و عادات عرب میں روحانی تربیت کا آغاز اگرچہ اسلام سے ہوا لیکن اسلام سے پہلے بھی اہل عرب میں بہت سے ایسے اوصاف پائے جاتے تھے جو تمغائے شرافت تھے اور جن پر ہر قوم ہر زمانہ میں ناز کر سکتی ہے۔ یہ اوصاف اگرچہ کم و بیش تمام قوم میں پائے جاتے تھے لیکن بعض بعض اشخاص زیادہ ممتاز ہوتے تھے۔ اور یہی لوگ قوم سے ریاست و حکومت کا منصب حاصل کرتے تھے۔ ان اوصاف میں فصاحت و بلاغت تقریر، شاعری، نسابی، سپہ گری، بہادری آزادی مقدم چیزیں تھیں اور ریاست و افسری میں ان ہی اوصاف کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قدرت نے ان سب میں سے کافی حصہ دیا تھا۔ تقریر کا ملکہ خداداد تھا اور عکاظ کے معرکوں نے اس کو اور زیادہ جلا دے دی تھی۔ یہی قابلیت تھی جس کی وجہ سے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دیا تھا جو ان لوگوں کے لئے مخصوص تھا جو سب سے زیادہ زبان آور ہوتے تھے۔ ان کے معمولی جملوں میں آرٹیری کا اثر اور بر محفل فقرے جو ان کے منہ سے نکل جاتے تھے ان میں بلاغت کی روح پائی جاتی تھی۔ عمرو بن معدی کرب کو جب پہلے پہل دیکھا تو چونکہ وہ غیر معمولی تن و توش کے آدمی تھے اس لئے متحیر ہو کر کہا " اللہ اس کا اور ہمارا خالق ایک ہی ہے۔ " مطلب یہ کہ ہمارے جسم میں اور اس کے جسم میں اس قدر تفاوت ہے کہ دونوں ایک کاریگر کے کام نہیں معلوم ہوتے۔ وباء کے واقعہ میں ابو عبیدہ نے ان پر اعتراض کیا آپ قضائے الٰہی سے بھاگتے ہیں تو کس قدر بلیغ لفظوں میں جواب دیا کہ "ہاں قضائے الٰہی کی طرف بھاگتا ہوں۔ " قوت تقریر مختلف وقتوں میں جو خطبے انہوں نے دیئے وہ آج بھی موجود ہیں۔ ان سے ان کے زور تقریر برجستگی کلام کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ خطبے مسند خلافت پر بیٹھنے کے ساتھ جو خطبہ دیا اس کے ابتدائی فقرے یہ تھے۔