الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ تعالیٰ عنہ و عبد اللہ بن عبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خمس کے مدعی تھے ان کا بھی یہ مقصد ہرگز نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ حق قیامت تک کے لئے ہے بلکہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے باقی رہ گئے تھے انہی کی نسبت ان کو ایسا دعویٰ ہو گا۔ فے کا مسئلہ ایک اور مہتم بالشان مسئلہ فئی کا ہے یعنی وہ زمین یا جائیداد جس کو مسلمانوں نے فتح کیا ہو۔ یہ مسئلہ اس قدر معرکۃ الآراٗ ہے کہ صحابہ کے عہد سے آج تک کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوا۔ باغ فدک کی عظیم الشان بحث بھی اسی مسئلے کی ایک فرع ہے۔ بڑا خلط مبحث اس میں اس وجہ سے ہوا کہ فے کے قریب المعنی اور جو الفاظ تھے یعنی نفل، غنیمت، سلب ان میں لوگ تفرقہ نہ کر سکے۔ ہم اس بحث کو نہایت تفصیل سے لکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں دستور تھا کہ لڑائی کی فتح میں جو کچھ آتا تھا، تمام لڑنے والوں کو برابر تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ سردار کو البتہ سب سے زیادہ چوتھا حصہ ملتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو ابتداء میں جس طرح اور بہت سی قدیم رسمیں قائم رہیں، یہ قاعدہ بھی کسی قدر تغیر صورت کے ساتھ قائم رہا۔ چنانچہ لڑائی کی فتح میں جو کچھ آتا تھا، غازیوں پر تقسیم ہو جاتا تھا۔ چونکہ قدیم سے یہی طریقہ جاری تھا۔ اور جناب رسول اللہ کے عہد میں بھی قائم رہا۔ اس لئے لوگوں کو خیال ہو گیا کہ مال غنیمت غازیوں کا ذاتی حق ہے اور وہ اس کے پانے کا ہر حالت میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ اس پر جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا۔ جنگ بدر میں جب فتح حاصل ہو چکی ہے۔ تو کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرتے ہوئے دور تک چلے گئے۔ کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر رہے۔ تعاقب کرنے والے واپس آئے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ غنیمت ہمارا حق ہے کیونکہ ہم دشمن سے لڑ کر لائے ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محافظ تھے۔ اس لئے ہم زیادہ حقدار ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یسئلونک عن الانفال قل الانفال للہ ولرسول۔ "تجھ سے لوگ مال غنیمت کی نسبت پوچھتے ہیں تو کہہ دو کہ وہ خدا اور رسول کی ملک ہے۔ " اس آیت نے اس اصول کو مٹا دیا کہ تمام مال غنیمت لڑنے والوں کا حق ہے اور افسر کو اس میں کسی قسم کے تصرف کا اختیار نہیں لیکن اس آیت میں غنیمت کے مسارف نہیں بیان کئے گئے پھر یہ آیت اتری۔