الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جنگ پر جانا مناسب نہیں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کی تائید میں تقریر کی۔ غرض کثرت رائے سے یہی فیصلہ ہوا کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موقع جنگ پر نہ جائیں۔ اسی طرح فوج کی تنخواہ، دفتر کی ترتیب، عمال کا تقرر، غیر قوموں کی تجارت کی آزادی اور ان پر محصول کی تشخیص۔ اسی قسم کے بہت سے معاملات ہیں جن کی نسبت تاریخوں میں بہ تصریح مذکور ہے کہ مجلس شوریٰ میں پیش ہو کر طے پائے۔ ان امور کے پیش ہوتے وقت ارکان مجلس نے جو تقریریں کیں وہ بھی تاریخوں میں مذکور ہیں۔ مجلس شوریٰ کا انعقاد اور اہل الرائے کی مشورت استحسان و تبرع کے طور پر نہ تھی، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف موقعوں پر صاف صاف فرمایا تھا کہ مشورے کے بغیر خلافت سرے سے جائز ہی نہیں، ان کے خاص الفاظ یہ ہیں : " لا خلافۃ الا عن مشورۃ " (کنز العمال بحوالہ مصنف بن ابی شیبہ جلد 3 صفحہ 139)۔ ایک اور مجلس مجلس شوریٰ کا اجلاس اکثر خاص خاص ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت ہوتا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور مجلس تھی جہاں روزانہ انتظامات اور ضروریات پر گفتگو ہوتی تھی۔ یہ مجلس ہمیشہ مسجد نبوی میں منعقد ہوتی تھی۔ اور صرف مہاجرین صحابہ اس میں شریک ہوتے تھے۔ صوبجات اور اضلاع کی روزانہ خبریں جو دربار خلافت میں پہنچتی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو اس مجلس میں بیان کرتے تھے اور کوئی بحث طلب امر ہوتا تھا تو اس میں لوگوں سے استصواب کیا جاتا تھا۔ مجوسیوں پر جزیہ مقرر کرنے کا مسئلہ اول اسی مجلس میں پیش ہوا تھا۔ مؤرخ بلاذری نے اس مجلس کا حال ایک ضمنی تذکرے میں ان الفاظ میں لکھا ہے : "للمھا جرین مجلس فی المسجد فکان عمر تجلس معھم فیہ و یحدثھم عما ینتبی الیہ من امر من امر الافاق فقال یوما ما ادری کیف اصنع بالمجوس۔ " عام رعایا کی مداخلت مجلس شوریٰ کے ارکان کے علاوہ عام رعایا کو انتظامی امور میں مداخلت حاصل تھی۔ صوبجات اور اضلاع کے حاکم رعایا کی مرضی سے مقرر کئے جاتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات بالکل انتخاب کا طریقہ عمل میں آیا تھا۔ کوفہ، بصرہ اور شام میں جب عمال