الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہرحال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مال گزاری کے وصول کا طریقہ یہ تھا کہ جب مال گزاری کی قسطیں کھلتی تھیں تو تمام پرگنہ جات سے رئیس اور زمیندار اور عراف طلب کئے جاتے تھے اور وہ پیداوار حال کے لحاظ سے کل ملک کے خراج کا ایک تخمینہ پیش کرتے تھے۔ اس کے بعد اسی طرح ہر ہر ضلع اور ہر ہر پرگنے کا تخمینہ مرتب کیا جاتا تھا، جس میں مقامی زمیندار اور مکھیا شریک ہوتے تھے۔ یہ تخمینی رقم ان لوگوں کے مشورے سے ہر ہر گاؤں پر پھیلا دی جاتی تھی۔ پیداوار جو ہوتی تھی اس میں سے اول گرجاؤں اور عمالوں کے مصارف اور مسلمانوں کی مہمانی کا خرچ نکال لیا جاتا تھا۔ باقی جو بچتا تھا اس میں سے جمع مشخصہ ادا کی جاتی تھی ہر گاؤں پر جمع تشخیص ہوتی تھی۔ پڑتے سے اس کا ایک حصہ گاؤں کے پیشہ وروں سے بھی وصول کیا جاتا تھا (مقریزی نے یہ پوری تفصیل نقل کی ہے۔ دیکھو کتاب مذکور صفحہ 77 علامہ بشاری کی کتاب جغرافیہ صفحہ 212 سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ) اس طریقہ میں اگرچہ بڑی زحمت تھی اور گویا ہر سال نیا بندوبست کرنا پڑتا تھا۔ لیکن مصر کے حالات کے لحاظ سے عدل اور انصاف کا یہی مقتضی تھا۔ اور مصر میں یہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ایک مدت سے معمول بھی تھا۔ لگان کی شرح فی جریب ایک دینار اور تین ارب غلہ قرار دی گئی اور یہ معاہدہ لکھ دیا گیا کہ اس مقدار پر کبھی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ مصر کا کل خراج اس عدل و انصاف کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جو خراج وصول ہوتا تھا اس کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ دینار تھی۔ جس کے تقریباً پانچ کروڑ چھ لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ یہ صرف جزیے کی رقم تھی۔ خراج اس کے علاوہ تھا۔ ابو حرقل بغدادی نے بھی اپنے جغرافیے میں قاضی ابو حازم کا جو قول نقل کیا ہے وہ اسی کے مطابق ہے۔ لیکن میرے نزدیک دونوں نے غلطی کی ہے۔ خود علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ جب عمرو بن العاص نے پہلے سال ایک کروڑ دینار وصول کئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باز پرس کی۔ یہ مسلم ہے کہ مقوقس کے عہد میں جزیے کا دستور نہ تھا۔ اس لیے عمرو بن العاص کی یہ رقم اگر جزیہ تھی تو مقوقس کی رقم سے اس کا مقابلہ کرنا بالکل بے معنی تھا۔ اس کے علاوہ تمام مؤرخین نے اور خود مقریزی نے جہاں خراج کی حیثیت سے اسلام کے ماقبل اور مابعد زمانوں کا مقابلہ کیا ہے ، اسی تعداد کا نام لیا ہے۔ بہر حال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں خراج کی مقدار جہاں تک پہنچی زمانہ بعد میں کبھی اس حد تک نہیں پہنچی۔ بنو امیہ اور بنو العباس کے زمانے میں تیس لاکھ دینار سے زیادہ وصول نہیں ہوا۔ مصر کا خراج بنو امیہ اور عباسیہ کے زمانے میں