الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے رومیوں کے مقابلے کے لیے اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مامور کیا۔ اور تمام اکابر صحابہ کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائیں۔ لوگ تیار ہو چکے تھے کہ آخیر صفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بیمار ہو گئے اور تجویز ملتوی ہو رہ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بہ روایتِ مشہور 13 دن بیمار رہے۔ بہقی نے بہ سند صحیح ان کی تعداد دس دن بیان کی ہے۔ سلیمان تمیمی نے بھی مغازی میں یہی تعداد لکھی ہے (فتح الباری، جلد 5، )۔ بیماری کی حالت یکساں نہ تھی۔ کبھی بخار کی شدت ہو جاتی تھی اور کبھی اس قدر افاقہ ہو جاتا تھا کہ مسجد میں جا کر نماز ادا فرماتے تھے ، یہاں تک عین وفات کے دن نماز فجر کے وقت طبیعت اس قدر بحال تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دروازے تک آئے اور پردہ اٹھا کر لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا، نہایت محظوظ ہوئے اور تبسم فرمایا۔ قرطاس کا واقعہ بیماری کا بڑا مشہور واقعہ قرطاس کا واقعہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات سے تین روز پہلے قلم اور دوات طلب کیا۔ اور فرمایا کہ " میں تمہارے لئے ایسی چیز لکھوں گا کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو گے۔ " اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو درد کی شدت ہے اور ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ حاضرین میں سے بعضوں نے کہا کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ " (نعوذ باللہ) روایت میں ہجر کا لفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں۔ یہ واقعہ بظاہر تعجب انگیز ہے۔ ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ اس سے گستاخی اور سرکشی ہو گی کہ جناب رسول صلی اللہ علیہ و سلم بستر مرگ پر ہیں اور امت کے درد و غمخواری کے لحاظ سے فرماتے ہیں کہ " لاؤ میں ایک ہدایت نامہ لکھ دوں جو تم کو گمراہی سے محفوظ رکھے۔ یہ ظاہر ہے کہ گمراہی سے بچانے کے لیے جو ہدایت ہو گی وہ منصب نبوت کے لحاظ سے ہو گی۔ اور اس لئے اس میں سہو و خطا کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ باوجود اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے پروائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ ضرورت نہیں ہم کو قرآن کافی ہے۔ طرہ یہ کہ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کو ہذیان سے تعبیر کیا تھا۔ (نعوذ باللہ)۔ یہ اعتراض ایک مدت سے چلا آتا ہے۔ اور مسلمانوں کے دو مختلف گروہوں نے اس پر بڑی طبع آزمائیاں کی ہیں۔ لیکن چونکہ اس بحث میں غیر متعلق باتیں چھڑ گئیں۔ اور اصول درایت سے کسی نے کام نہیں لیا۔ اس لئے مسئلہ نا منفصل رہا اور عجیب عجیب بیکار بحثیں پیدا ہو گئیں۔ یہاں تک کہ یہ مسئلہ چھڑ گیا کہ پیغمبر سے ہذیان ہونا ممکن ہے۔ کیونکہ ہذیان انسانی عوارض میں ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عوارض انسانی سے بری نہ تھے۔