الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مذہبی آزادی کی نسبت دوبارہ تصریح ہے کہ لایکرھون علی دینھم عیسائیوں کے خیال میں چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے صلیب دے کر قتل کیا تھا اور یہ واقعہ خاص بیت المقدس میں پیش آیا تھا۔ اس لیے ان کی خاطر سے یہ شرط منظور کی کہ یہودی بیت المقدس میں نہ رہیں گے۔ یونانی باوجود اس کے کہ مسلمانوں سے لڑتے تھے اور درحقیقت وہی مسلمانوں کے اصلی عدو تھے۔ تاہم ان کے لیے یہ رعایتیں ملحوظ رکھیں کہ بیت المقدس میں رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں۔ اور نکل جانا چاہیں تو نکل کر جا سکتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں ان کو امن حاصل ہو گا۔ اور ان کے گرجاؤں اور معبدوں سے کچھ تعرض نہ کیا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر بیت المقدس کے عیسائی اگر یہ چاہیں گے کہ وطن سے نکل کر رومیوں سے جا ملیں تو اس پھر بھی کچھ تعرض نہ کیا جائے گا۔ بلکہ ان کے گرجے وغیرہ جو بیت المقدس میں ہیں محفوظ رہیں گے۔ کیا کوئی قوم مفتوحہ ملک کے ساتھ اس سے بڑھ کر منصفانہ برتاؤ کر سکتی ہے ؟ سب سے مقدم امر یہ ہے کہ ذمیوں کی جان و مال کو مسلمانوں کی جان و مال کے برابر قرار دیا گیا۔ کوئی مسلمان اگر کسی ذمی کو قتل کر ڈالتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً اس کے بدلے مسلمان کو قتل کرا دیتے تھے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرۃ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھ بھیجا کہ قاتل، مقتول کے وارثوں کو دیا جائے۔ چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کا نام حنین تھا، حوالہ کیا گیا۔ او ر اس نے اس کو قتل کر ڈالا۔ (الدرایہ فی تخریج الہدایہ مطبوعہ دہلی صفحہ 360)۔ مال اور جائیداد کے متعلق کی حفاظت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضے میں تھیں اسی حیثیت سے بحال رکھیں۔ جس حیثیت سے فتح سے پہلے ان کے قبضے میں تھیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ان زمینوں کا خریدنا بھی ناجائز قرار دیا گیا۔ چنانچہ اس بحث کو ہم تفصیل کے ساتھ محاصل ملکی کے بیان میں لکھ آئے ہیں۔ بندوبست مال گزاری میں ذمیوں کا خیال مال گزاری میں جو مشخص کی گئی وہ نہایت نرم اور ہلکی پھلکی تھی۔ اس پر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خیال ہوا کہ کہیں ان پر سختی تو نہیں کی گئی۔ چنانچہ مرتے مرتے بھی یہ خیال نہ گیا۔ ہر سال یہ معمول تھا کہ جب عراق کا خراج آتا تو دس شخص کوفہ اور دس شخص بصرہ سے طلب کئے جاتے تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے چار دفعہ بتاکید قسم لیتے تھے کہ مال گزاری کے وصول کرنے کچھ سختی تو نہیں کی گئی ہے (کتاب الخراج)۔ وفات سے دو تین دن پہلے کا واقعہ ہے کہ افسران بندوبست کو بلایا اور تشخیص جمع کے متعلق ان سے گفتگو کی۔ اور بار بار پوچھتے رہے کہ جمع سخت تو نہیں مقرر کی گئی۔ (کتاب الخراج صفحہ 21 میں ہے قال شھدت عمر بن الخطاب قبل ان یصاب بثلاث اربع واقفاً علی حذیفۃ بن الیمان عثمان بن حنیف و ھو یقول لھما العلکما حملتما الارض ملا تطیق)۔