الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوتا ہے )۔ اس کے علاوہ ہر روز 120/اونٹ خود اپنے اہتمام سے ذبح کراتے تھے اور قحط زدوں کو کھانا پکوا کر کھلاتے تھے۔ اس موقع پر یہ بات خاص طور پر جتا دینے کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگرچہ ملک کی پرورش اور پرداخت کا اتنا کچھ اہتمام تھا لیکن ان کی فیاضی ایشیائی قسم کی فیاضی نہ تھی جس کا نتیجہ کاہلی اور مفت خوری کا رواج دنیا میں ہوتا ہے۔ رفاہ عام کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نکتہ سنجی ایشائی سلاطین و امراء کی فیاضیوں کا ذکر عموماً بڑے ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے۔ لیکن لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ اس سے جہاں ایک بادشاہ کی مدح نکلتی ہے دوسری طرف قوم کا درویزہ گر ہونا اور انعام و بخشش پر لو لگائے بیٹھے رہنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہی ایشائی فیاضیاں تھیں جس نے آج ہماری قوم میں لاکھوں آدمی ایسے پیدا کر دیئے ہیں جو خود ہاتھ پاؤں ہلانا نہیں چاہتے اور نذر و نیاز وغیرہ پر اوقات بسر کرتے ہیں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے بے خبر نہ تھے۔ وہ اس بات کی سخت کوشش کرتے تھے کہ لوگوں میں کاہلی اور مفت خوری کا مادہ نہ پیدا ہونے پائے۔ جن لوگوں کی تنخواہیں اور خوراک مقرر کی تھیں، وہ صرف وہ لوگ تھے جن سے کبھی نہ کبھی فوجی خدمت کو توقع ہو سکتی تھی۔ یا جنہوں نے پہلے کوئی نمایاں خدمت کی ہوئی تھی اور وہ ضعیف اور بیماری کی وجہ سے خود کسب معاش نہیں کر سکتے تھے۔ اس اقسام کے علاوہ وہ کبھی اور قسم کی فیاضی کو روا نہیں رکھ سکتے تھے۔ محدث ابن جوزی نے سیرۃ العمرین میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک سائل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا تو اس کی جھولی آٹے سے بھری ہوئی تھی۔ چھین کر اونٹوں کے آگے ڈال دی اور فرمایا کہ اب جو مانگنا ہے مانگ۔ علامہ ماروردی نے احکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ محتسب کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو جو کھانے کمانے کے قابل ہوں اور باوجود اس کے صدقہ اور خیرات لیتے ہوں تنبیہہ و تادیب کرے۔ اس کے بعد علامہ موصوف نے اس کی سند میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فعل سے استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ وقد فعل عمر مثل ذلک بقوم من اھل الصدقۃ۔ (الاحکام السلطانیہ مطبوعہ مصر صفحہ 235)۔ معمول تھا کہ جب کسی شخص کو ظاہر میں خوشحال دیکھتے تو دریافت فرماتے کہ یہ کوئی پیشہ بھی کرتا ہے ! اور جب لوگ کہتے کہ نہیں، تو فرماتے کہ یہ شخص میری آنکھ سے گر گیا۔ ان کا مقولہ تھا کہ مکسبہ فیھا دنائۃ خیر من مسالۃ الناس یعنی ذلیل پیشہ بھی لوگوں سے سوال کرنے کے بہ نسبت اچھا ہے۔ مفت خوری کا موقع تو زیادہ تر علماء و صوفیا کو ملتا ہے۔ ان کے زمانے تک