الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائے۔ عام حاضرین نے رائے دی کہ حمص میں ٹھہر کر امدادی فوج کا انتظار کیا جائے۔ ابو عبیدہ نے کہا کہ اتنا وقت کہاں ہے ؟ آخر یہ رائے ٹھہری کہ حمص کو چھوڑ کر دمشق روانہ ہوں۔ وہاں خالد موجود ہیں اور عرب کی سرحد قریب ہے۔ یہ ارادہ مصمم ہر چکا تو حضرت ابو عبیدہ نے حبیب بن مسلمہ کو جو افسر خزانہ تھے بلا کر کہا کہ عیسائیوں سے جو جزیہ یا خراج لیا جاتا ہے اس وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان لیے جو کچھ ان سے وصول ہوا ہے۔ سب ان کو واپس دے دو۔ اور ان سے کہہ دو کہ ہم جو تمہارے ساتھ جو تعلق تھا اب بھی ہے۔ لیکن چونکہ اس وقت تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے اس لیے جزیہ جو حفاظت کا معاوضہ ہے واپس کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کئی لاکھ کی رقم جو وصول ہوئی تھی کل واپس کر دی گئی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو واپس لائے۔ یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے کہا " تورات کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں، قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے۔ اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ ابو عبیدہ نے صرف حمص والوں کے ساتھ یہ برتاؤ نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جزیہ کی جس قدر رقم وصول ہوئی ہے واپس کر دی جائے۔ (ان واقعات کو بلاذری نے فتوح البلدان میں، قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں ، ازدی نے فتوح الشام میں تفصیل سے لکھا ہے )۔ غرض ابو عبیدہ دمشق کو روانہ ہوئے (میں نے یہ تفصیلی واقعات فتوح الشام ازدی سے لیے ہیں۔ لیکن ابو عبیدہ کا حمص چھوڑ کر دمشق چلا آنا ابن واضح عباسی اور دیگر مورخوں نے بھی بیا ن کیا ہے۔ ) اور ان تمام حالات کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص سے چلے آئے۔ نہایت رنجیدہ ہوئے لیکن جب ان کو یہ معلوم ہوا کل فوج اور افسران نے یہی فیصلہ کیا تو فی الجملہ تسلی ہوئی اور فرمایا کہ خدا نے کسی مصلحت سے تمام مسلمانوں کو اس رائے پر متفق کیا ہو گا۔ ابو عبیدہ جو جواب میں لکھا کہ " میں مدد کے لیے سعد بن ابی عامر کو بھیجتا ہوں۔ لیکن فتح و شکست فوج کی قلت و کثرت پر نہیں ہے۔ ابو عبیدہ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشورت کی۔ یزید بن ابی سفیان، شرجیل بن حسنہ، معاذ بن جبل، سب نے مختلف رائیں دیں۔ اسی اثناء میں عمرو بن العاص کا قاصد خط لے کر پہنچا جس کا یہ مضمون تھا کہ " اردن کے اضلاع میں عام بغاوت پھیل گئی ہے۔ رومیوں کی آمد آمد نے سخت تہلکہ ڈال دیا ہے اور حمص کو چھوڑ کر چلے آنا نہایت بے رعبی کس سبب ہوا ہے۔ " ابو عبیدہ نے جواب میں لکھا کہ حمص کو ہم نے ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصود یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجیں جا بجا پھیلی ہوئی ہیں یکجا ہو جائیں۔ خط میں یہ بھی لکھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ٹلو، میں وہیں آ کر تم سے ملتا ہوں۔ دوسرے دن ابو عبیدہ دمشق سے روانہ ہو گئے اور اردن کی حدود میں یرموک پہنچ کر قیام کیا۔ عمرو بن العاص بھی یہیں آ کر ملے ، یہ موقع جنگ کی ضرورتوں کے لیے اس لحاظ سے مناسب تھا کہ عرب کے سرحد بہ نسبت اور تمام مقامات کے یہاں