الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
، فارس کا بادشاہ مر چکا ہے اور سلطنت ایک عورت کے ہاتھ میں ہے۔ ان کو چھوڑ کر تم نے ہماری طرف کیو رخ کیا؟ حالانکہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا بادشاہ ہے اور تعداد میں ہم آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر ہیں۔ معاذ نے کہا کہ سب سے پہلے ہماری یہ درخواست ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ۔ ہمارے کعبہ کی طرف نماز پڑھو، شراب پینا چھوڑ دو۔ سور کا گوشت نہ کھاؤ۔ اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تمہارے بھائی ہیں۔ اگر اسلام لانا منظور نہیں تو جزیہ دو۔ اس سے بھی انکار ہو تو آگے تلوار ہے۔ اگر تم آسمان کے ستاروں کے برابر ہو تو ہم کو قلت اور کثرت کی پرواہ نہیں۔ ہمارے خدا نے کہا کہ " کم من فئۃِ قلیلۃِ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللہ " تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اس کو درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں، وہ پردے میں نہیں بیٹھتا، اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا، مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔ " رومیوں نے کہا " اچھا ہم تم کو بلقاء کا ضلع اوراردن کا وہ حصہ جو تمہاری زمین سے متصل ہے دیتے ہیں۔ تم یہ ملک چھوڑ کر فارس جاؤ۔ معاذ نے انکار کیا اور اٹھ کر چلے آئے۔ رومیوں نے براہ راست ابو عبیدہ سے گفتگو کرنی چاہی۔ چنانچہ اس غرض سے ایک خاص قافلہ بھیجا۔ جس وقت وہ پہنچا ابو عبیدہ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہاتھ میں تیر تھے جن کو الٹ پلٹ کر رہے تھے۔ قاصد نے خیال کیا تھا کہ سپہ سالار بڑا جاہ و حشم رکھتا ہو گا۔ اور یہی اس کی شناخت کا ذریعہ ہو گا۔ لیکن وہ جس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا تھا سب ایک رنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ آخر گھبرا کر پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے ؟ لوگوں نے ابو عبیدہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ حیران رہ گیا اور تعجب سے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کیا درحقیقت تم ہی سردار ہو؟ ابو عبیدہ نے کہا! " ہاں " قاصد نے کہا، ہم تمہاری فوج کو فی کس دو دو اشرفیاں دیں گے ، تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا۔ قاصد برہم ہو کر اتھا۔ ابو عبیدہ نے اس کے تیور دیکھ کر فوج کو کمر بندی کا حکم دیا اور تمام حالات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھ بھیجے (فتوح الشام ازدی میں ہے کہ یہ خط ایک شامی لے کر گیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترغیب سے مسلمان ہو گیا )۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب مناسب لکھا اور " حوصلہ دلایا کہ ثابت قدم رہو۔ خدا تمہارا یاور اور مدد گار ہے۔ " ابو عبیدہ نے اسی دن کمر بندی کا حکم دے دیا تھا۔ لیکن رومی مقابلے میں نہ آئے۔ اگلے دن تنہا خالد میدان میں گئے۔ صرف سوارون کا رسالہ رکاب میں تھا۔ رومیوں نے بھی تیاری کی اور فوج کے تین حصے کر کے باری باری میدان میں بھیجے۔ پہلا دستہ خالد ان کی طرف باگیں اٹھائے چلا آتا تھا کہ خالد کے اشارے سے قیس بن ببیرہ نے صف سے نکل کر ان کا اگا روکا اور سخت کشت و خون ہوا۔ یہ معرکہ ابھی سر نہیں ہوا تھا کہ دوسری فوج نکلی۔ خالد نے سبرۃ بن مسروق کو اشارہ کیا۔ وہ اپنی رکاب کی فوج کو لے کر مقابل ہوئے ، تیسرا لشکر بڑے ساز و سامان سے نکلا۔ ایک مشہور سردار اس کا سپہ سالار تھا۔ اور بڑی