الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آ کر لگا۔ لوگوں نے نکالنا چاہا تو انہوں نے منع کیا کہ جب تک یہ بدن میں ہے اسی وقت تک زندہ بھی ہوں۔ چنانچہ اسی حالت میں حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور شربراز کو جو ایک نامی افسر تھا، تلوار سے مارا۔ تھوڑی دیر لڑ کر ایرانی بھاگ نکلے اور شہر والوں نے صلح کا پھریرا اڑا دیا۔ ببرۃ شیر اور مدائن میں صرف دجلہ حائل تھا۔ سعد سیرۃ شیر سے بڑھے تو آگے دجلہ تھا۔ ایرانیوں نے پہلے سے جہاں جہاں پل بنے تھے توڑ کر بیکار کر دیئے تھے۔ سعد دجلہ کے کنارے پہنچے۔ نہ پل تھا نہ کشتی، فوج سے مخاطب ہو کر کہا " برادران اسلام! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہر کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے۔ یہ مہم بھی سر کر لو تو پھر مطلع صاف ہے۔ " یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ ان کو دیکھ کر اوروں نے بھی ہمت کی۔ اور دفعتہً سب نے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے۔ دریا اگرچہ نہایت زخار اور مواج تھا، لیکن ہمت اور جوش نے طبیعتوں میں یہ استقلال پیدا کر دیا کہ موجیں برابر گھوڑوں سے آ آ کر ٹکراتی تھیں اور یہ رکاب ملا کر آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ یمین و یسار کی جو ترتیب تھی اس میں بھی فرق نہ آیا۔ دوسرے کنارے پر ایرانی یہ حیرت انگیز تماشہ دیکھ رہے تھے۔ جب فوج کنارے کے قریب آ گئی تو ان کو خیال ہوا کہ یہ آدمی نہیں جن ہیں۔ چنانچہ (تاریخ طبری کے بعینہ یہیں الفاظ ہیں) " دیواں آمدند، دیواں آمدند" کہتے ہوئے بھاگے۔ تاہم سپہ سالار خرزاد تھوڑی سی فوج کے ساتھ جما رہا اور گھاٹ پر تیر اندازوں کے دستے معین کر دیئے۔ اور ایک گروہ دریا میں اتر کر سد راہ ہوا۔ لیکن مسلمان سیلاب کی طرح بڑھتے چلے گئے اور تیر اندازوں کو خس و خاشاک کی طرح مٹاتے پار نکل آئے۔ یزدگرد نے حرم اور خاندان شاہی کو پہلے ہی حلوان روانہ کر دیا تھا۔ یہ خبر سن کر خود بھی شہر چھوڑ کر نکل گیا۔ سعد مداین میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا۔ نہایت عبرت ہوئی اور بے اختیار یہ آیتیں زبان سے نکلیں۔ " کم تر کوا من جنت و عیون و زروع و مقام کریم و نع،ۃ کانوا فیھا فکھین کذلک و اورثھا قوما الحرین۔ " ایوان کسریٰ میں تخت شاہی کے بجائے منبر نصب ہوا۔ چنانچہ جمعہ کی نماز اسی میں ادا کی گئی اور یہ پہلا جمعہ تھا جو عراق میں ادا کیا گیا۔ ہمارے فقہاء کو تعجب ہو گا کہ سعد نے باوجود یہ کہ اکابر صحابہ میں سے تھے اور برسوں جناب رسالت مآب کی صحبت میں رہے تھے۔ عالمگیر و محمود کی تقلید نہیں کہ بلکہ ایوان میں جس قدر مجسم تصویریں تھیں سب برقرار رہنے دیں۔ (علامہ طبری نے جو بڑے محدث بھی تھے تصریح کے ساتھ اس واقعہ کو لکھا ہے )۔ دو تین دن ٹھہر کر سعد نے حکم دیا کہ دیوانات شاہی کا خزانہ اور نادرات لا کر یکجا کئے جائیں۔ کیانی سلسلے سے لے کر نوشیرواں کے عہد تک کی ہزاروں یادگاریں تھیں۔ خاقان چین، راجہ داہر، قیصر روم، نعمان بن منذر، سیاؤش، میر ام چوبیں کی زرہیں اور تلواریں تھیں۔ کسریٰ ہرمز اور کیقباد کے خنبر تھے۔ نوشیروان کا تاج زرنگار اور ملبوس شاہی تھا۔ سونے کا ایک گھوڑا تھا جس پر چاندی کا زین کسا ہوا تھا، اور سینے پر یاقوت اور زمرد سے جڑے ہوئے تھے۔ چاندنی کی ایک اونٹنی تھی