الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
جس پر سونے کی پالان تھی اور مہار میں بیش قیمت یاقوت پروئے ہوئے تھے۔ ناقہ سوار سر سے پاؤں تک جواہرات سے مرصع تھا۔ سب سے عجیب و غریب ایک فرش تھا، جس کو ایرانی بہار کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ فرش اس غرض سے تیار کیا گیا تھا کہ جب بہار کا موسم نکل جاتا تھا تو اس پر بیٹھ کر شراب پیتے تھے۔ اس رعایت سے اس میں بہار کے تمام سامان مہیا کئے تھے۔ بیچ میں سبزی کا چمن تھا۔ چاروں طرف جدولیں تھیں۔ ہر قسم کے درخت اور درختوں میں شگوفے اور پھول پھل تھے۔ طرہ یہ کہ جو کچھ تھا زر و جواہر کا تھا۔ یعنی سونے کی زمین، زمرد کا سبزہ، پکھراج کی جدولیں، سونے چاندی کے درخت، حریر کے پتے ، جواہرات کے پھل تھے۔ یہ تمام سامان فوج کی عام غارتگری میں ہاتھ آیا تھا۔ لیکن فوجی ایسے راست باز اور دیانتدار تھے کہ جس نے جو چیز پائی تھی بجنسہ لا کر افسر کے پاس حاضر کر دی۔ چنانچہ جب سب سامان لا کر سجایا گیا اور دور دور تک میدان جگمگا اٹھا تو خود سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حیرت ہوئی۔ بار بار تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جن لوگوں نے ان نادرات کو ہاتھ نہیں لگایا، بے شبہ انتہاء کے دیانتدار ہیں۔ مال غنیمت حسب قاعدہ تقسیم ہو کر پانچواں حصہ دربار خلافت میں بھیجا گیا۔ فرش اور قدیم یادگاریں بجنسہ بھیجی گئیں کہ اہل عرب ایرانیوں کے جاہ و جلال اور اسلام کی فتح و اقبال کا تماشا دیکھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے جب یہ سامان چنے گئے تو ان کو بھی فوج کی دیانت اور استغناء پر حیرت ہوئی۔ محلم نام کا مدینہ میں ایک شخص تھا جو نہایت موزوں قامت اور خوبصورت تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ نوشیروان کے ملبوسات اس کو لا کر پہنائے جائیں۔ یہ ملبوسات مختلف حالتوں کے تھے۔ سواری کا جدا، دربار کا جدا، جشن کا جدا، تہنیت کا جدا، چنانچہ باری باری تمام ملبوسات محلم کو پہنائے گئے۔ جب ملبوس خاص اور تاج زرنگار پہنا تو تماشائیوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور دیر تک لوگ حیرت سے تکتے رہے۔ فرش کی نسبت لوگوں کی رائے تھی کہ تقسیم نہ کیا جائے۔ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی منشاء تھا لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصرار سے اس بہار پر بھی خزاں آئی اور دولت نوشیروانی کے مرقع کے پرزے اڑ گئے۔ یورپ کے موجودہ مذاق کے موافق یہ ایک وحشیانہ حرکت تھی لیکن ہر زمانے کا مذاق جدا ہے۔ وہ مقدس زمانہ جس میں زخارف دنیوی کی عزت نہیں کی جاتی تھی۔ دنیاوی یادگاروں کی کیا پرواہ کر سکتا تھا۔