الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بابل کی طرف بھاگ گیا۔ برس کے رئیس نے جس کا نام اسطام تھا، صلح کر لی اور بابل تک موقع بہ موقع پل تیار کرا دیئے۔ کہ اسلامی فوجیں بے تکلف گزر جائیں۔ بابل میں اگرچہ عجم کے بڑے بڑے سردار خیز جان، ہرمزان، مہران، مہرجان وغیرہ جمع تھے۔ لیکن پہلے ہی حملے میں بھاگ نکلے۔ سعد نے خود بابل میں مقام کیا اور زہرہ کی افسری میں فوجیں آگے روانہ کیں۔ عجمی فوجیں بابل سے بھاگ کر کوفی میں ٹھہری تھیں اور شہریار جو رئیس زادہ تھا ان کا سپہ سالار تھا زہرہ کوفی سے جب گزرے تو شہر یار آگے بڑھ کر مقابل ہوا اور میدان جنگ میں آ کر پکارا کہ جو بہادر تمام لشکر میں انتخاب ہو مقابلے کو آئے۔ زہرہ نے کہا میں نے خود تیرے مقابلے کا ارادہ کیا تھا، لیکن جب تیرا یہ دعویٰ ہے تو کوئی غلام تیرے مقابلے کو آ جائے گا۔ یہ کہہ کر ناہل کو جو قبیلہ تمیم کا غلام تھا اشارہ کیا۔ اس نے گھوڑا آگے بڑھایا۔ شہریار روپو کا سا تن و توش رکھتا تھا۔ ناہل کو کمزور دیکھ کر نیزہ ہاتھ سے پھینک گردن میں ہاتھ ڈال کر زور سے کھینچا اور زمین پر گرا کر سینے پر چڑھ بیٹھا۔ اتفاق سے شہریار کا انگوٹھا ناہل کے منہ میں آ گیا۔ ناہل نے اس زور سے کاٹا کہ شہریار تلملا گیا۔ ناہل موقع پا کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور تلوار سے پیٹ چاک کر دیا۔ شہریار نہایت عمدہ لباس اور اسلحہ سے آراستہ تھا۔ ناہل نے زرہ وغیرہ اس کے بدن سے اتار کر سعد کے آگے لا کر رکھ دیں۔ سعد نے عبرت کے لیے حکم دیا، ناہل وہی لباس اور اسلحہ سجا کر آئے۔ چنانچہ شہریار کے زرق برق لباس اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر جب مجمع عام میں آیا تو لوگوںکی آنکھوں میں زمانے کی نیرنگیوں کی تصویر پھر گئی۔ کوثی ایک تاریخی مقام تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے یہیں قید میں رکھا تھا۔ چنانچہ قید خانے کی جگہ اب تک محفوظ تھی۔ سعد اس کی زیارت کو گئے۔ اور درود پڑھ کر آیت پڑھی " تلک الایام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بین الناس"۔ کوثی سے آگے پائے تخت کے قریب ببرہ شیر ایک مقام تھا۔ یہاں ایک شاہی رسالہ رہتا تھا۔ جو ہر روز ایک بار قسم کھا کر کہتا تھا کہ " جب تک ہم ہیں سلطنت فارس میں کبھی زوال نہیں آ سکتا۔ " یہاں ایک شیر پلا ہوا تھا جو کسریٰ سے بہت ہلا ہوا تھا۔ اور اسی لیے اس کو ببرۃ شیر کہتے تھے۔ سعد کا لشکر قریب پہنچا تو وہ تڑپ کر نکلا۔ لیکن ہاشم نے جو ہراول کے افسر تھے اس صفائی سے تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ سعد نے اس بہادری پر ان کی پیشانی چوم لی۔ آگے بڑھ کر سعد نے ببرۃ شہر کا محاصرہ کیا۔ اور فوج نے ادھر ادھر پھیل کر ہزاروں آدمی گرفتار کر لئے۔ شیرزاد نے جو ساباط کا رئیس تھا، سعد سے کہا یہ یہ معمولی کاشتکار ہیں۔ ان کے قید کرنے سے کیا حاصل۔ چنانچہ سعد نے ان کے نام دفتر میں درج کر لیے اور چھوڑ دیا۔ آس پاس کے تمام رئیسوں نے جزیہ قبول کر لیا۔ لیکن شہر پر قبصہ نہ ہو سکا۔ دو مہینے تک برابر محاصرہ رہا۔ ایرانی کبھی کبھی قلعہ سے نکل کر معرکہ آرا ہوتے تھے۔ ایک دن بڑے جوش و خروش سے سب نے مرنے پر کمریں باندھ لیں اور تیر برساتے ہوئے آ نکلے۔ مسلمانوں نے برابر کا جواب دیا۔ زہرہ جو ایک مشہور افسر تھے اور معرکوں میں سب سے آگے رہتے تھے ، ان کی زرہ کی کڑیاں کہیں کہیں سے ٹوٹ گئیں تھیں۔ لوگوں نے کہا کہ اس زرہ کو بدل کر نئی پہن لیجیئے۔ بولے کہ میں ایسا خوش قسمت کہاں کہ دشمن کے تیر سب کو چھوڑ کر میری ہی طرف آئیں۔ اتفاق کہ پہلا تیر انہی کو