الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
و نسوۃ سعد لیس فیھن ابم " ہم واپس پھرے تو سینکڑوں عورتیں بیوہ ہو چکی تھیں، لیکن سعد کی بیوی بیوہ نہیں ہوئی۔ " یہ اشعار اسی وقت بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ سعد نے تمام فوج کو جمع کر کے آبلوں کے زخم دکھائے اور اپنی معذوری ثابت کی۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامہ فتح لکھا اور دونوں طرف کے مقتولوں کی تفصیل لکھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ جس دن سے قادسیہ کا معرکہ شروع ہوا تھا ہر روز آفتاب نکلتے مدینے سے نکل جاتے اور قاصد کی راہ دیکھتے۔ ایک دن معمول کے موافق نکلے۔ ادھر سے ایک شتر سوار آ رہا تھا۔ بڑھ کر پوچھا کہ کدھر سے آتے ہو۔ دو سعد کا قاصد تھا اور مژدہ فتح لے کر آیا تھا۔ جب معلوم ہوا کہ سعد کا قاصد ہے تو اس حالات پوچھنے شروع کئے۔ اس نے کہا کہ خدا نے مسلمانوں کو کامیاب کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکاب کے برابر دوڑتے جاتے تھے اور حالات پوچھتے جاتے تھے۔ شتر سوار شہر میں داخل ہوا تو دیکھتا جو شخص آتا ہے ان کو "امیر المومنین کے لقب سے پکارتا ہے ، ڈر سے کانپ اٹھا۔ اور کہا کہ حضرت نے مجھ کو اپنا نام کیوں نہ بتایا کہ میں اس گستاخی کا مرتکب نہ ہوتا۔ " فرمایا " نہیں کچھ حرج نہیں۔ تم سلسلہ کلام کو نہ توڑو۔ چنانچہ اسی طرح اس کے رکاب کے ساتھ ساتھ گھر تک آئے۔ مدینے پہنچ کر مجمع عام میں فتح کی خوشخبری سنائی۔ اور ایک نہایت پُر اثر تقریر کی جس کا اخیر فقرہ یہ تھا۔ " مسلمانوں! میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کو غلام بنانا چاہتا ہوں۔ میں خدا کا غلام ہوں۔ البتہ خلافت کا بار میرے سر پر رکھا گیا ہے۔ اگر میں اسی طرح تمہارا کام کروں کہ تم چین سے گھروں میں سوؤ تو میری سعادت ہے اور اگر یہ میری خواہش ہو کہ تم میرے دروازے پر حاضری دو تو میری بدبختی ہے۔ میں تو کو تعلیم دینا چاہتا ہوں لیکن باتوں سے نہیں عمل سے۔ " قادسیہ کے معرکے میں جو عجم یا عرب مسلمانوں سے لڑتے تھے ان میں ایسے بھی تھے جو دل سے لڑنا نہیں چاہتے تھے ، بلکہ زبردستی فوج میں پکڑے آئے تھے۔ بہت سے لوگ گھر چھوڑ گئے تھے۔ فتح کے بعد یہ لوگ سعد کے پاس آئے اور امن کی درخواست کی۔ سعد نے دربار خلافت کو لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کو بلا کر رائے لی۔ اور سب نے بالاتفاق منظور کیا۔ غرض تمام ملک کو امن دیا گیا۔ جو لوگ گھر چھوڑ کر نکل گئے تھے۔ واپس آ کر آباد ہوتے گئے۔ رعایا کے ساتھ یہ ارتباط بڑھا کہ اکثر بزرگوں نے ان میں رشتہ داریاں کر لیں۔ ایرانیوں نے قادسیہ سے بھاگ کر بابل میں مقام کیا اور چونکہ یہ ایک محفوظ و مستحکم مقام تھا، اطمینان کے ساتھ جنگ کے تمام سامان مہیا کر لیے تھے اور فیرزان کو لشکر قرار دیا تھا۔ سعد نے ان کے استیصال کے لیے 15 ہجری میں بابل کا ارادہ کیا اور چند سردار آگے روانہ کئے کہ راستہ صاف کرتے جائیں۔ چنانچہ مقام برس میں بصیری سدراہ ہوا اور میدان جنگ میں زخم کھا کر