الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان اشعار نے سلمٰی کے دل پر یہ اثر کیا کہ خود آ کر بیڑیاں کاٹ دیں۔ انہوں نے فوراً اصطبل میں جا کر سعد کے گھوڑے پر جس کا نام بلقا تھا زین کسا اور میدان جنگ پہنچ کر بھالے کے ہاتھ نکالتے ہوئے ایک دفعہ میمنہ سے میسرہ تک کا چکر لگایا۔ پھر اس زور و شور سے حملہ کیا کہ جس طرف نکل گئے صف کی صف الٹ دی۔ تمام لشکر متحیر تھا کہ یہ کون بہادر ہے۔ سعد بھی حیران تھے اور دل میں کہتے تھے کہ حملہ کا انداز ابو محجن کا ہے۔ لیک وہ قید خانے میں قید ہے۔ شام ہوئی تو ابو محجن نے آ کر خود بیڑیاں پہن لیں۔ سلمٰی نے یہ تمام حالات سعد سے بیان کئے۔ سعد نے اسی وقت ان کو رہا کر دیا اور کہا " خدا کی قسم مسلمانوں پر جو شخص یوں نثار ہو میں اس کو سزا نہیں دے سکتا۔ " ابو محجن نے کہا " بخدا میں بھی آج سے پھر کبھی شراب کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ (کتاب الخراج قاضی ابو یوسف )۔ خنساء جو عرب کی مشہور شاعرہ تھی (خنساء کے واقعات نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب ہیں۔ اس کا دیوان بیروت میں چھپ گیا ہے۔ اور اس کے مفصل حالات علامہ ابو الخرج اصفہانی نے کتاب الاثانی میں لکھے ہیں۔) اصناف شعر میں، مرثیہ گوئی میں اس کا کوئی نظیر نہیں گزرا۔ چنانچہ بازار عکاظ میں اس کے خیمے کے دروازے پر ایک علم نصب کیا جاتا تھا جس پر لکھا ہوتا تھا رثی العرب یعنی تمام عرب میں سب سے بڑھ کر مرثیہ گو۔ وہ اسلام بھی لائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں حاضر ہوئی تھی)۔ اس معرکے میں شریک تھی اور اس کے چاروں بیٹھے بھی تھے۔ لڑائی جب شروع ہوئی تو اس نے بیٹوں کی طرف خطاب کیا اور کہا : لم تئب بکم البلاد ولم تفعکم السنۃ ثم جئتم بامکم عجوز کبیرۃ فوضعنموھا بین ابدی احل فارس واللہ الکم لبنود جل واحد کما الکم بنو امراۃ واحدۃما خت اباکمولا لضحت بحالکم انطلقوا فاشھدو اول انفعال و اخرہ۔ "پیارے بیٹو! تم اپنے ملک کو دوبھر نہ تھے ، نہ تم پر قحط پڑا تھا۔ باوجود اس کے تم اپنی کہن سال ماں کو یہاں ہائے اور فارس کے آگے ڈال دیا۔ خدا کی قسم جس طرح تم ایک ماں کی اولاد ہو، اسی طرح ایک باپ کے بھی ہو۔ میں نے تمہارے باپ سے بد دیانتی نہیں کی، نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا، تو جاؤ آخر تک لڑو۔ " بیٹوں نے ایک ساتھ باگیں اٹھائیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ جب نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو خنساء نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا " خدایا میرے بیٹوں کو بچانا۔ "