الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
وار کیا۔ انہوں نے خالی دیا۔ وہ زمین پر گرا، انہوں نے جھک کر برچھی ماری کہ سینے کے پار ہو گئی۔ اس کے ساتھ دو سوار تھے۔ ان میں ایک ان کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اور دوسرے نے اس شرط پر امان طلب کی کہ میں قیدی بن کر ساتھ چلتا ہوں۔ اتنے میں فوج میں ہل چل پڑ گئی اور لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے لیکن طلحہ لڑتے بھڑتے صاف نکل آئے اور ساٹھ ہزار فوج دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ قیدی نے سعد کے سامنے اسلام قبول کیا۔ اور کہا کہ دونوں سوار جو طلحہ کے ہاتھ سے مارے گئے ، میرے ابن عم تھے۔ اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ اسلام کے بعد قیدی کا نام مسلم رکھا گیا اور اس کی وجہ سے دشمن کی فوج کے بہت سے ایسے حالات معلوم ہوئے جو اور کسی طرح معلوم نہیں ہو سکتے تھے ، وہ بعد کے تمام معرکوں میں شریک رہا اور ہر موقع پر ثابت قدمی اور جانبازی کے جوہر دکھائے۔ رستم چونکہ لڑنے سے جی چراتا تھا، ایک دفعہ اور صلح کی کوشش کی۔ سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارا کوئی معتمد آدمی آئے تو صلح کے متعلق گفتگو کی جائے۔ سعد نے ربعی بن عامر کو اس خدمت پر مامور کیا۔ وہ عجیب و غریب ہیئت سے چلے۔ عرق گیر کی زرد نائی اور اسی کا ایک ٹکڑا سر سے لپیٹ لیا۔ کمر میں رسی کا پٹکا باندھا اور تلوار کے میان چیتھڑے لپیٹ لئے۔ اس ہیئت کذائی سے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے۔ ادھر ایرانیوں نے بڑے ساز و سامان سے دربار سجایا۔ دیبا کا فرش زرین، گاؤ تکئے ، حریر کے پردے ، صدر نشیں مرصع، ربعی فرش کے قریب آ کر گھوڑے سے اترے اور باگ ڈور کو گاؤ تکئے سے اٹکا دیا۔ درباری بے پروائی کی ادا سے اگرچہ کچھ نہ بولے۔ تاہم دستور کے موافق ہتھیار رکھوا لینا چاہا۔ انہوں نے کہا میں بلایا آیا ہوں۔ تم کو اس طرح میرا آنا منظور نہیں تو میں الٹا پھر جاتا ہوں۔ درباریوں نے رستم سے عرض کی اس نے اجازت دی۔ یہ نہایت بے پروائی کی ادا سے آہستہ آہستہ تخت کی طرف بڑھے۔ لیکن برچھی جس سے عصا کا کام لیا تھا، اس کی انی کو اس طرح فرش میں چبھوتے جاتے تھے کہ پرتکلف فرش اور قالین جو بچھے ہوئے تھے جابجا سے کٹ پھٹ کر بیکار ہو گئے۔ تخت کے قریب پہنچ کر زمین پر نیزہ مارا، جو فرش کو آرپار کر کے زمین میں گڑ گیا۔ رستم نے پوچھا کہ اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ " اس لئے کہ مخلوق کی بجائے خالق کی عبادت کی جائے " رستم نے کہا میں ارکان سلطنت سے مشورہ کر کے جواب دوں گا۔ درباری بار بار ربعی کے پاس آ کر ان کے ہتھیار دیکھتے تھے اور کہتے تھے اسی سامان پر ایران کی فتح کا ارادہ ہے ؟ لیکن جب ربعی نے تلوار میان سے نکالی تو آنکھوں میں بجلی سی کوند گئی۔ اور جب اس کے کاٹ کی آزمائش کے لئے ڈھالیں پیش کی گئیں تو ربعی نے ان کے ٹکڑے اڑا دیئے۔ ربعی اس وقت چلے آئے لیکن نامہ و پیام کا سلسلہ جاری رہا۔ اخیر سفارت میں مغیرہ گئے۔ اس دن ایرانیوں نے بڑے ٹھاٹھ سے دربار جمایا۔ جس قدر ندیم اور افسر تھے تاج پہن کر کرسیوں پر بیٹھے خیمے میں دیباد سنجاب کا فرش بچھایا گیا۔ اور خدام اور منصب دار قرینے سے دو رویہ پرے جما کر کھڑے ہوئے۔ مغیرہ گھوڑے سے اتر کر سیدھے صدر نشیں کی طرف بڑھے اور رستم کے زانو سے زانوں ملا کر بیٹھ گئے۔ اس گستاخی پر تمام دربار برہم ہو گیا۔ یہاں تک کہ چوبداروں نے بازو پکڑ کر ان کو تخت سے اتار دیا۔ مغیرہ نے افسران دربار کی