الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس پر سب نے سکوت کیا۔ لیکن مغیرہ بن زراہ ضبط نہ کر سکے۔ اٹھ کر کہا کہ " یہ لوگ (اپنے رفیقوں کی طرف اشارہ کر کے ) رؤسائے عرب ہیں۔ علم وقار کی وجہ سے زیادہ یاوہ گوئی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جو کچھ کہا یہی زیبا تھا۔ لیکن کہنے کے قابل باتیں رہ گئیں۔ انکو میں بیان کرتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ ہم بدبخت اور گمراہ تھے۔ آپس میں کٹتے مرتے تھے۔ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔ لیکن خدائے تعالیٰ نے ہم پر ایک پیغمبر بھیجا جو حسب و نسب میں ہم سے ممتاز تھا۔ اول اول ہم نے اس کی مخالفت کی۔ وہ سچ کہتا تھا تو ہم جھٹلاتے تھے۔ وہ آگے بڑھتا تو ہم پیچھے ہٹتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کی باتوں نے دلوں میں اثر کیا۔ وہ جو کچھ کہتا تھا خدا کے حکم سے کہتا تھا اور جو کچھ کرتا تھا، خدا کے حکم سے کرتا تھا، اس نے ہم کو حکم دیا کہ اس مذہب کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرو۔ جو لوگ اسلام لائیں وہ تمام حقوق میں تمہارے برابر ہیں، جن کو اسلام سے انکار ہو، اور جزیہ پر راضی ہوں وہ اسلام کی حمایت میں ہیں۔ جس کو دونوں باتوں سے انکار ہوا، اس کے لیے تلوار ہے۔ " یزدگرد غصے سے بیتاب ہو گیا اور کہا کہ اگر قاصدوں کا قتل جائز ہوتا تو تم میں سے کوئی زندہ بچ کر نہ جاتا۔ یہ کہہ کر مٹی کا ٹوکرا منگوایا اور کہا کہ تم میں سب سے معزز کون ہے ؟ عاصم بن عمر نے بڑھ کر کہا " میں "۔ ملازموں نے ٹوکرا ان کے سر پر رکھ دیا۔ وہ گھوڑا اڑاتے ہوئے سعد کے پاس پہنچے کہ " فتح مبارک ہو۔ دشمن نے اپنی زمین خود ہم کو دے دی۔ " اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سکوت رہا۔ رستم جو سلطنت فارس کی طرف سے اس مہم پر مامور تھا۔ ساباط میں لشکر لئے پڑا تھا۔ اور یزدگرد کی تاکید پر بھی لڑائی کو ٹالتا جاتا تھا۔ ادھر مسلمانوں کا یہ معمول تھا کہ آس پاس کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے۔ اور رسد کے لئے مویشی وغیرہ لوٹ لاتے تھے۔ اس عرصہ میں بعض بعض رئیس ادھر سے ادھر آ گئے۔ ان میں جوشن ماہ بھی تھا جو سرحد کی اخبار نویسی پر مامور تھا۔ اس حالت نے طول کھینچا تو رعایا جوق در جوق یزدگرد کے پاس پہنچ کر فریادی ہوئی کہ اب ہماری حفاظت کی جائے ورنہ ہم اہل عرب کے مطیع ہوئے جاتے ہیں۔ چار و ناچار رستم کو مقابلے کے لئے بڑھنا پڑا۔ ساٹھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ساباط سے نکلا اور قادسیہ پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ لیکن فوج جن جن مقامات سے گزری ہر جگہ نہایت بے اعتدالیاں کیں۔ تمام افسر شراب پی کر بدمستیاں کرتے تھے اور لوگوں کے ناموس تک کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ ان باتوں نے عام ملک میں یہ خیال پھیلا دیا کہ سلطنت عجم اب فنا ہوتی نظر آتی ہے۔ رستم کی فوجیں جس دن ساباط سے بڑھیں، سعد نے ہر طرف جاسوس پھیلا دیئے کہ دم دم کی خبریں بپہنچتی رہیں۔ فوج کا رنگ ڈھنگ، لشکر کشی کی ترتیب، اتارے کا رخ، ان باتوں کے دریافت کے لیے فوجی افسر متعین کئے۔ اس میں کبھی کبھی دشمن کا سامنا بھی ہو جاتا تھا۔ چنانچہ طلحہ ایک دفعہ رات کے وقت رستم کے لشکر میں لباس بدل کر گئے ، ایک جگہ بیش بہا گھوڑا تھان پر بندھا دیکھا۔ تلوار سے باگ ڈور کاٹ کر اپنے گھوڑے کی باگ ڈور سے اٹکا لی۔ اس عرصہ میں لوگ جاگ اٹھے اور ان کا تعاقب کیا۔ گھوڑے کا سوار ایک مشہور افسر تھا۔ اور ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا۔ اس نے قریب پہنچ کر برچھی کا